Friday, April 26
Shadow

Month: July 2021

Nabeela Ahmed- Writer, Storyteller, Poetess, Artist, Mirpur/Bradford,

Nabeela Ahmed- Writer, Storyteller, Poetess, Artist, Mirpur/Bradford,

Writers
Nabeela Ahmed is a writer, storyteller, multilingual poet, and spoken word artist. She writes and shares her work in English, Urdu, and Pahari. Her poetry was the main feature of the Keighley Arts and Film Festival in 2020. She has had poems published in England, America, Pakistan, and India. She self-published her book, Despite our Differences via Amazon in 2018 and is currently working on her novel. Click here to access the Kindle edition Despite our Differences! Despite our differences:  Nabeela Ahmed (Author)
تیرہ جولائی سے پچیس جولائی تک -/ :سردار محمد حلیم خان

تیرہ جولائی سے پچیس جولائی تک -/ :سردار محمد حلیم خان

آرٹیکل
سردار محمد حلیم خان hjrat786@gmail.com تیرہ جولائی ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس دن بائیس فرزندان توحید نے اپنا خون دے کر تحریک ازادی کی جس شمع کی بنیاد رکھی اس کی لو اکانوے سال گزرنے کے باوجود مدہم نہیں ہوئی۔شیخ عبداللہ آتش چنار میں لکھتے ہیں کہ جب ہری سنگھ کی بربریت کے نتیجے میں اذان مکمل کرتے ہوئے بائیس فرزندان توحید خاک وخون میں نہا چکے تو ہم نے زخمیوں کا جائزہ لینا شروع کیا ایک زخمی نے مجھے اشارہ کر کے قریب بلایا اس نے کہا شیخ صاحب ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اب آپ نے اپنا فرض پورا کرنا ہے۔ یہ الفاظ ادا کرتے ہی اس کی روح پرواز کر گئی میں اس شہید کے الفاظ پہ غور کرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں یقینا ہر شہید کی یہ تمنا ضرور ہو گی کہ جس مشن کی خاطر وہ جان دے رہے ہیں زندہ بچ جانے والے اس کی تکمیل کریں۔13 جولائی کے شہداء سری نگر کا قصور کیا تھا اور ان...
شجر سایہ دار باپ کی عظمت / تحریر :محمد ثناألحق

شجر سایہ دار باپ کی عظمت / تحریر :محمد ثناألحق

آرٹیکل
تحریر :محمد ثناألحق ;مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں  میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں; ناجانے آج کا زمانہ ماں ماں ہی کیوں کہتا ہے وہ بھی زبانی کلامی ۔والدین دنیا کی وہ انمول نعمت ہیں کہ یہ نعمت  کھونے کے بعد کبھی  بھی نہیں حاصل   ہو سکتی۔ماں اگر جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ،باپ کی رضا اللّہ کی رضا ہے،پھر کیوں آج کے معاشرے میں باپ کو  زیر بحث نہیں لایا جاتا ۔باپ وہ عظیم ہستی ہے جو خود کو  کبھی سورج کی گرمی تو کبھی سردی کے کُہر سے ٹکرا دیتا ہے۔ایک بیٹے کی ہی نہیں بیٹے کی مامتا کی بھی پرورش کرتا ہے ۔ سمندرکِنارےایک  جھوپڑی تھی جس میں ایک غریب لکڑہارا اپنے  تین سالا بیٹے اور بیوی کے ساتھ رہتا  تھا ایک دن اُن والدین  کا لخت جگر   سمندر میں گِر گیا تو دونوں   بچے کو نکالنے لگے  تو  ماں غم سے نڈھال ہو گی  ماں تو ...
زندگی خواہشات اور خواب تحریر:  مریم جاوید چغتائی

زندگی خواہشات اور خواب تحریر: مریم جاوید چغتائی

آرٹیکل
تحریر:  مریم جاوید چغتائیکیا زندگی خواہشات کا نام ہے؟  ہاں شاید خواہشیں پوری ہونا نہ ہونا الگ بات ہے مگر اک چھوٹی سی زندگی ہوتی انسان کے پاس اس میں خواہشات بھی ہونی چاہئے اور  خواب بھی دیکھنے چاہئے ایسی ہزاروں خواہشات ہزاروں خواب ہوتے انسان کی زندگی میں کہ جنہیں وہ پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا کچھ پوری ہو جاتیں اور کچھ ادھوری رہ جاتیں خواہشات کے ہونے پروان چڑھنے اور پھر پورے کرنے کا سفر بہت مشکل ہوتا بعض افراد ہار مان جاتے اور اپنے خوابوں اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے مگر کچھ باہمت لوگ جنہیں کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہوتا خود کو منوانے کے لیے جی جان لگا دیتے آخر دم تک کوشش کرتے اور کامیابی حاصل کر لیتےرب عزوجلﷻ نے یہی قانون بنایا ہے کہ جو وہ اپنے بندے کے حق میں بہتر سمجھتا ہے وہ اُسے دیتا ہے اور جو اُس کے حق میں بہتر نہیں ہوتا وہ جی جان لگا دے مگر حاصل نہیں کر پاتا انسان کی زندگی خواہشوں او...
گلوبل وارمنگ -تحریر  :- ماہ نور جمیل عباسی

گلوبل وارمنگ -تحریر :- ماہ نور جمیل عباسی

آرٹیکل
تحریر  :- ماہ نور جمیل عباسیسورج کی کرنیں جب زمین پہ پڑتی ہیں تو اپنے ساتھ حرارت بھی لاتی ہیں جو زمین میں موجود پودوں اور دیگر جانداروں کے لئے مفید ہے ۔ اس حرارت سے زمین کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے اور زمین زیادہ ٹھنڈی نہیں ہوتی ۔  یہ حرارت زمین سے ٹکرا کر قدرتی عمل سے  واپس پلٹ جاتی ہے جس سے زمین نہ تو زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور نہ گرم ۔لیکن جوں ہی  انسان نے قدرت کے ان اصولوں کو جانے انجانے میں نقصان پہنچانا شروع کیا  تب قدرت نے  اپنا بھیانک روپ دکھایا ۔ انسانوں کے عمل کا قدرت نے رد عمل  ایسا دیا کہ آج دنیا   ایک بڑی آفت کی زد میں ہے ۔ گلوبل وارمنگ یعنی زمینی درجہ حرارت میں حیران کن  اصافہ  ہمارے عمل کی وجہ سے آنے والا رد عمل ہے ۔آئیے سمجھتے ہیں کہ اصل میں گلوبل وارمنگ کیا ہے ۔ اسکی وجوہات کیا ہیں ، اس کے نقصانات اور اس آفت سے کیسے بچا جا سکتا ہے ۔ سورج کی طرف سے آنے والی شعاعوں میں سے کچھ ...
محمد شعیب مرزا – کہانی کار،مصنف ،ڈرامہ نویس  ۔ لاہور

محمد شعیب مرزا – کہانی کار،مصنف ،ڈرامہ نویس ۔ لاہور

رائٹرز
محمد شعیب مرزا       محمد شعیب مرزا بچو ں کے ادب  اور ڈرامہ نگاری میں ایک معروف نام ہیں -وہ  گزشتہ اٹھارہ سال سے ماہنامہ پھول سے وابستہ ہیں۔آپ نے بے شمار قومی اور بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کی،ہر جگہ بچوں کے ادب کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ”اکادمی ادبیات اطفال“ کے زیر اہتمام  بچوں کے ادیبوں کی سالانہ کانفرنس کرواتے ہیں جو ادب اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک قابلِ ستائش قدم ہے،اس کانفرنس میں ادیبوں میں تسنیم جعفری ایوارڈ سمیت مختلف ایوارڈ دیے جاتے ہیں -اس کے علاوہ ان کا ادارہ متعد د کتب بھی شائع کر چکا ہے -وہ متعد د ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں - ان کے لکھے گئے ڈراموں کو ریڈیو پر پزیرائی ملی ہے -محمد شعیب مرزا کی تصانیفحیاتِ قائداعظم اور نو جوان،نیشنل بک فاؤنڈیشن سے ایورڈ یافتہفاتح کون،بڑوں کے لئے سیاسی کالموں کا انتخا...
معرفت کی باتیں /  تحریر: زنیرا پرویز

معرفت کی باتیں / تحریر: زنیرا پرویز

آرٹیکل
تحریر: زنیرا پرویز            خدمتِ خلق            انسان کہلانے کا مستحق وہی ہے جو دوسروں کے لیے درد رکھتا ہو ، دوسروں سے محبت کا سلوک روا رکھتا ہو ، مصیبت میں کسی کے کام آنے والا ہو، الغرض انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے جیے ،اپنے لیے تو حیوان اور کیڑے مکوڑے بھی جیتے ہیں ۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے یہ درجہ اور رتبہ اسے صرف اس طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ کہ وہ دوسروں کے لیے جیے ، ان کی خدمت کرے۔خدمت اور ایثار کا جذبہ ہی انسان کو دوسرے جانداروں سے افضل بناتا ہے ۔دنیا کے ہر مذہب میں خدمتِ خلق پر زور دیا گیا ہے۔ اگر انسان کسی مظلوم یا دکھی کی مدد نہیں کر سکتاتو وہ جانور ہے، یا یوں کہیں کہ جانور سے بھی بدتر ہے۔          خدمتِ خلق کی کئی صورتیں ہیں ، محتاجوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا، بیمار کی تیمار...
خوابوں میں کھوئی زندگی – تحریر:  فوزیہ تاج

خوابوں میں کھوئی زندگی – تحریر: فوزیہ تاج

آرٹیکل
فوزیہ تاجوہ چھ سات سالہ بچی تھی. ایک خواب  اسے بار بار آ کر ڈرایا کرتا تھا کہ بازار میں بہت رش ہے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ ہے.اور پھر ماں اس سے گم ہو گئی ہے. وہ چاروں طرف دیکھتی ہے. سر ہی سر نظر آتے ہیں.... مگر وہ بھیڑ میں اکیلی رہ گئی ہے. وہ زور زور سے ماں کو پکارتی ہے. اور آنکھ کھل جانے پہ پرسکون ہو جاتی ہے کہ وہ محض ایک خوف تھا جو خواب میں آ کر اسے ڈرایا کرتا تھا. پھر یہ ہونے لگا کہ بھیڑ میں جاتے سمے...... ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامنا معمول بن گیا..... چاہے وہ خواب ہی تھا مگر وہ کبھی ماں کا ہاتھ نہیں چھوڑے گی. پھر بازار میں  ماں کے ہاتھ میں خریدے جانے والے سامان کے شاپر جب زیادہ ہو جاتے تو وہ ماں کا ایک ہاتھ خالی رکھنے کے لیئے بھاری شاپر اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتی تا کہ ماں اسکا ہاتھ تھامے رہے.......پھر شاپر زیادہ ہو جاتے تو  بات ایک انگلی تھامنے تک آ جاتی ... اب ماں کے د...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact