Friday, April 26
Shadow

Day: March 29, 2021

اجلے خوابوں کی رہ گزر کا مسافرتحریر: ڈاکٹر سیدہ آمنہ ؔبہار

اجلے خوابوں کی رہ گزر کا مسافرتحریر: ڈاکٹر سیدہ آمنہ ؔبہار

شخصیات
تحریر: ڈاکٹر سیدہ آمنہ ؔبہار نو برس پرانی بات ہے کہ ایک دبلا پتلا نوجوان چہرے پر متانت آمیز مسکراہٹ،ایک اخبار اور ایک عدد فائل ہاتھ میں لیے میرے دفتر آیامیں یہی سمجھی کہ بہت سے نوآموز لکھنے والے اصلاح کاشوق رکھتے ہیں شاید یہ موصوف بھی اپنی شاعری کی اصلاح کے لیے تشریف لائے ہیں۔تعارف ہوا تو پتا چلا کہ آنے والے ملاقاتی فرہاد احمد فگارؔ ہیں اور کسی اخبار میں نامہ نگار ہیں۔اس وقت وہ ہفت روزہ مون کریشنز کے لیے میرا انٹرویو کرنے آئے ہیں۔باتوں کے دوران میں ہی معلوم پڑا کہ وہ مظفرآباد کی کئی دیگر ادبی شخصیات کے انٹر ویوز کر چکے ہیں۔میں اپنی عدیم الفرصتی کے باعث سے پہلے ہی بے زار تھی سو میں نے کسی اور دن آنے کا کِہ کر ٹال دیا۔کچھ دن گزر گئے میں سمجھی شاید فرہاد فگارؔ اب بھول چکے ہوں گے لیکن کہاں؟ فگارؔ نے دوبارہ فون کیا کہ میڈم آج اگر فرصت ہو تو انٹر ویو کے لیے آؤں۔میں نے ایک دفعہ پھر معذرت کر ل...
مجوزہ شونٹھر سرنگ منصوبے کی اہمیت ، تحریر : پروفیسر  عبدالشکور شاہ

مجوزہ شونٹھر سرنگ منصوبے کی اہمیت ، تحریر : پروفیسر عبدالشکور شاہ

آرٹیکل
پروفیسرعبدالشکورشاہ               تصاویر : سوشل میڈیا                آزادکشمیر وادی نیلم میں شونٹھر کا درہ کبھی تجارتی اور سفری سرگرمیوں کا محور و مرکز ہوا کر تا تھا۔ 1947 سے قبل شونٹھردرہ گلگت بلتستان اور وادی کشمیرکے درمیان شاہرہ ریشم تصور کیا جاتا تھا۔ ڈوگرہ دور میں یہاں ایک سرائے بھی ہوا کرتی تھی جسکی نسبت مقامی لوگ آج بھی اس مقام کو بنگلہ پکارتے ہیں۔ شونٹھر پاس پار کرنے کے لیے مسافر یہاں عارضی قیام کرتے تھے۔ ہری پربت کے دامن میں موجود یہ علاقہ قدرتی جڑی بوٹیوں، معدنیات اور نایاب جنگلی حیات اور جنگلات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ ڈوگرہ دور میں اس علاقے کے قدرتی خزانوں کی حفاظت کے لیے ایک چوکی بھی قائم کی جاتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ اب معدومی، محرومی،افلاس، کسم پرسی اور ویرانے کامنظر پیش کر تا ہے۔ دررہ شونٹھر مظفر آباد سے تقریباً 190 کلو میٹر فاصلے پر جنوب مشر...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact