Saturday, April 20
Shadow

Day: February 25, 2021

ممتاز غزنی کی  کتاب”بچپن لوٹا دو”  پر پروفیسر سید وجاہت گردیزی کا تبصرہ

ممتاز غزنی کی کتاب”بچپن لوٹا دو” پر پروفیسر سید وجاہت گردیزی کا تبصرہ

تبصرے
تحریر: پروفیسر سید وجاہت گردیزی انسان کو تکلم اور عقل کی صلاحیت اشرف المخلوقات کے رتبے پرفائز کرتی ہے ۔اسی لیے وہ اپنے تجربات اور فکر کو پیغامات یا تحریر کی صورت میں دوسروں تک پہنچانا پسند کرتا ہے۔ ہرانسان کو اپنی ذات سے خصوصی لگاؤ ہوتا ہے۔ذات کی یہ دلچسپی تجربات کی ترسیل کا ذریعہ بن کر انسان کو قلبی تسکین بھی مہیا کرتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے ہزاروں لوگوں کے مشاہدات اور تجربات تحریری شکل میں ادب کا سرمایہ ہیں۔آپ بیتی،سوانح عمری، سفرنامہ، خودنوشت اور دیگر اصناف میں وسیع ذخیرہ انسان کے جمالیاتی ذوق کاآئینہ بھی ہے اور اس کی داخلی زندگی کا اظہار بھی۔ ممتاز غزنی کی تصنیف "بچپن لوٹا دو" ممتاز غزنی کی تصنیف "بچپن لوٹا دو" تجربات اور مشاہدات کا دیدہ زیب مرقع ہے۔بچپن کی محبتوں سے لبریز منقش الفاظ ،اصطلاحات،تراکیب ،ضرب الامثال اور کہاوتوں میں پونچھی تہذیب وثقافت کا احاطہ کرتی یہ تصنیف ...
نوجوان فرسٹریشن کا شکار کیوں؟ ربیعہ فاطمہ بخاری

نوجوان فرسٹریشن کا شکار کیوں؟ ربیعہ فاطمہ بخاری

آرٹیکل
/ تحریر: ربیعہ فاطمہ بخاری فوٹو کریڈٹ : یو نیسف / آج کا نوجوان فرسٹریشن کا شکار کیوں ہے؟  یہ سوال فی زمانہ ہر فورم پہ بہت زیادہ زیرِ بحث رہتا ہے.  سوچا میں بھی اس کے اسباب و علل پہ کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں۔ فرسودہ جمہوری نظام  سب سے پہلی چیز جو میں سمجھتی ہوں، نوجوانوں کے رستے کی رکاوٹ اور مایوسی پھیلانے کا باعث ہے، وہ ہمارا فرسودہ ترین جمہوری نظامِ حکومت ہے، جہاں وہی شریف، وہی میر، وہی مزاری، وہی لغاری، وہی لاشاری اور وہی مخدوم زادے گزشتہ چوہتّر سال سے اقتدار پہ جونکیں بن کے چپکے ہوئے ہیں۔  بلندوبانگ دعووں کےساتھ جو بھی حکمران مسندِ اقتدار پہ بیٹھتا ہے، اُس کے دعووں کی قلعی چند ماہ میں ہی کُھل کے رہ جاتی ہے۔ مایوسی کی فضا خان صاحب نے اس مایوسی کی فضا کو کئی گُنّا بڑھا دیا ہے کہ اُن کی ذات میں نوجوانوں نے ایک مسیحا ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور آج وہ...
گلگت بلتستان کی ایک تاریخی سڑک، ھدایت اللہ اختر

گلگت بلتستان کی ایک تاریخی سڑک، ھدایت اللہ اختر

تصویر کہانی
 کہانی کار اور تصویر : ھدایت اللہ اختر  کبھی اس سڑک سے لوگوں کا سرینگر آنا جانا تھا ۔گلگت میں اسی راستے پہلی جیپ ۱۹۳۲ میں گلگت پہنچی ۔اس سڑک کے بننے سے پہلے یہی سے  شین لوگ (چک) کشمیر پہنچے اور حکمرانی کی ۔ اسی روڈ سے خچروں کے ذریعے کونوداس پُل کی لوہے کی رسیاں گلگت پہنچی ۔اسی روڈ سے گلگت سکاوٹس کے جوان تراگبل دراس تک پہنچے ۔ نہ صرف یہ کہ شین لوگ (چک) کشمیر پہنچے اور حکمرانی بلکہ اسی راستے نے گلگت بلتستان کو ایک اکائی کی شکل دی ، اسی راستے میں پرتاب پُل، رام گھاٹ پُل اور کئی تاریخی جگہیں واقع ہیں ۔ اب یہ راستہ پاکستانی علاقہ چلم چوکی تک سب کے لیئے کھلا ہے لیکن چلم سے آگے گلگت بلتستان کی سر زمین منی مرگ قمری اور چورون تک جانا کوئی چاہئے تو بنا این او سی نہیں جا سکتا ہے چاہئے وہ مقامی ہی کیوں نہ  ہو۔ ...
اللہ تیرا شکر، رانی کے اپنے گھر کی تکمیل ہوگئی ، جبار مرزا

اللہ تیرا شکر، رانی کے اپنے گھر کی تکمیل ہوگئی ، جبار مرزا

تصویر کہانی
کہانی کار اور تصاویر : جبار مرزا  یہ بھی میری ایک صحافتی یاد ھے ، برسوں پہلے رانی کو انار کا ایک پودا پسند آگیا اور گلابی رنگ کا امرود میری پسند تھا ، رانی کی خواہش تھی اپنا گھر بنائیں گے تو یہ دونوں پودے وہاں لگائیں گے لہذا 19/20 برس سے وہ پودے گملوں میں ہی لگے رہے۔ یوں ہم ہر سال بونسائی نظرئیے کے تحت دونوں پودوں کی گملوں میں ہی تراش خراش کر دیتے ، وہ بساط کے مطابق پھل بھی دیتے رہے ، وقت گزرتا گیا یوں پودے مٹی کے گملوں میں اور ہم دنیا کے گملے میں بوڑھے ہوگئےمگر گھر پھر بھی نہ بن سکا ، ایسے میں 17 جنوری 2021ء آن پہنچا، رانی عدم سدھار گئی وہ اپنے اصلی گھر چلی گئی۔ ہم نے بھی یہ موقع غنیمت جانا اور رانی کے پہلو میں اپنے گھر کا پلاٹ بھی مختص کرا لیا اور اپنی اپنی پسند کے وہ دونوں پودے سرہانے لگا کر رانی کا خواب پورا کر دیا ، وعدہ نبھا دیا، ہماری ایک غزل کا شعر ھے کہ وفائے وع...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact