Thursday, April 25
Shadow

Day: February 7, 2021

کونسا کشمیر آزاد کرواناھے اور کیوں؟ سردار خورشید انور

کونسا کشمیر آزاد کرواناھے اور کیوں؟ سردار خورشید انور

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
موجودہ دور میں جس متنازعہ خطہ کا ذکر ھو رھ ہے۔ وہ 4 اکتوبر 1947 کو متنازعہ بنا۔ یہ ایک تسلیم شدہ ریاست تھی۔ اس کا نام تھا ریاست جموں و کشمیر۔ جس کی اکاہیاں لداخ بلتستان گلگت اور وادٸ کشمیر تھیں۔ رقبہ85806 مربع میل تھا ۔یہ ریاست 16 مارچ 1846 کو معرض وجود میں آٸی ۔ اس کا بانی مہاراجہ گلاب سنگھ تھا ۔یہ کثیر المذاھب ریاست تھی۔اور سب علاقہ جات اور مذاھب کی نماہندگی تھی۔ ایک صدی بعد۔جب دوقومی نظریات کے تحت ہندوستان کا بٹوارہ ھوا۔۔تو دو قوموں یا دو مذاھب کا نا مکمل بٹوارہ ھو گیا ۔ آدھی سے زیادہ قوم یا ملت ہندوستان میں چھوڑ کر آدھی قوم قلعہ بند ھو گٸی ۔ ایسے لگتا تھا چند ملاں اور وڈیرے بہت جلدی میں ہیں۔ دوقومی تعصب کو ریاست جموں کشمیر میں بھی کھینچ کر لایا گیا۔ کچھ سہولتاروں کو کو مہرے بنایا گیا۔اور مسلم اکثریتی علاقہ جات میں غدر کھیلا گیا۔ اور سردار ابراھیم کی قیادت میں ساڑھے ...
کےٹُو— اپاہج، لولے لنگڑے — ڈائنوسار

کےٹُو— اپاہج، لولے لنگڑے — ڈائنوسار

آرٹیکل
تحریر و تصویر: محمد احسن آخر وہ مرنے کے لیے کیوں جاتے ہیں؟ اللہ نہ کرے کہ کوئی بُری خبر آئے ۔ مگر سُننے میں آیا ہے۔ کہ برگر شہزادوں اور پاپا کی پریوں نے تنقید کا طوفان مچایا ہوا ہے ۔ کہ جب معلوم ہے کہ انسان مر سکتا ہے۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح یہ کوہ پیما لوگ خطرناک پہاڑوں کو جاتے ہی کیوں ہیں؟؟ اب سب مل بیٹھ کر رو رہے ہیں۔ یعنی جس وقت کےٹو ٹیم کی خیروعافیت کی دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اُس وقت پاکستانی قوم اپنی بد فطرتی پر آئی ہوئی ہے۔ قابلِ افسوس رویہ۔ میری نظر سے ایسی پوسٹیں نہیں گزریں ۔ کیونکہ الحمدللہ مَیں بروقت احباب کو بھانپ کر کنارہ کشی اختیار کرتا رہا تھا۔ نتیجتاً اب صرف اعتراضات کا جواب دینے والے احباب کی پوسٹیں نظر آ رہی ہیں۔ سب کا شکریہ۔ البتہ مختلف پیجز کے گھٹیا کمنٹس نظر سے گزر رہے ہیں۔ویسے تو احباب جواب دے ہی رہے ہیں کہ انسان تو ہر وقت موت کے منہ میں ہوتا ہے۔...
زبیر کی قاتل کیٹ آئیز۔ جلال الدین مغل

زبیر کی قاتل کیٹ آئیز۔ جلال الدین مغل

آرٹیکل
دواوں نے اثر کیا نہ دعائیں رنگ لا سکیں۔ ڈاکٹروں کی کاوشیں، تیمارداروں کی بھاگ دوڑ، والدین کی التجائیں،بھائیوں کے صدقات و خیرات ہونی کو نہ ٹال سکے۔ بالاخر چار و ناچار ہم سب نے خدا کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے سردار زبیر کو الوداع کہا ۔ اور مٹی کی امانت کو مٹی کے سپرد کر دیا۔ اب بس اس کی یادیں اور باتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، مگر رہ رہ کر ایک خیال بار بار آتا ہے ۔ کہ اگر روڈ پر قاتل دھاتی کیٹ آئی نصب نہ ہوتیں تو شائد یہ حادثہ جاں لیوا نہ ہوتا- زبیر عمر میں چھوٹا،رشتے میں بھتیجا مگر حقیقت میں دوست تھا۔ اڑھائی سال قبل پی ایس سی پاس کرکے گورنمنٹ کالج داتوٹ،راولاکوٹ میں فزکس پڑھانا شروع کی۔ 14جنوری کو جس دن حادثہ ہوا، اس سے اگلے روز ایم فل فزکس کے تھیسز کا دفاع کرنا تھا۔ اس وقت بھی اسی سلسلے میں اپنے دوست کےہمراہ سپروائزر سے ملاقات اور مشاورت کے ...
لنڈے کی جرسی ۔ ڈاکٹر اسد امتیاز

لنڈے کی جرسی ۔ ڈاکٹر اسد امتیاز

آرٹیکل
ڈاکٹر کی ڈائری !! آج کلینک کے بعد سُسرال کا چکر لگایا تو اپنی better والی ہاف کو بڑا تیار شیار پایا،کھانا سرو کیا گیا جمائ راجہ کو،۔۔ ۔۔دی سِری پکی تھی میری فرمائش پر۔ ٹھنڈ کافی تھی بیگم صاحبہ جا کر اندر سے جرسی پہن آئیں،میری نظر پڑی تو جرسی بڑی کھِلتی ہوئ لگی،میں نے تعریف کی واہ،تو اور کھِل گئی۔۔ پوچھا یہ کہاں سے خریدی؟ کیونکہ عموماً شاپنگ میں خود ہی کرواتا ہوں۔۔ تو مُسکرا کر کہنے لگی LB سے ۔۔‏LB؟میں نے پوچھایہ کونسا برانڈ ہے؟ کھسیانی ہنسی ہس کے بولی،لنڈا بازار۔ میں بڑا حیران ہوا میں نے کہا کتنے کی؟؟ کہنے لگی تین سو روپے کی۔۔ ہیں ں ں۔۔ وہ کیسے؟ بازار گئے تھے، ایک بندہ پھٹے پہ جرسیاں لگا کر بیٹھا تھا،گزرتے نظر پڑی،اچھی لگی تو خرید لی۔۔۔۔۔ واہ یار بلکل بھی پتا نہی چل رہا ۔ ویسے۔۔۔یہی اگر کسی برینڈ سٹور پہ پڑی ہوتی تو تین ہزار کی بھی لے لیتے۔۔۔ کہنے لگی ؛ہاں تو یہ بھی برین...
دیارغیرمیں رہ کراپنوں کی موت کا صدمہ ۔ شبیر احمد ڈار

دیارغیرمیں رہ کراپنوں کی موت کا صدمہ ۔ شبیر احمد ڈار

آرٹیکل
ہمارے ہاں بدقسمتی سے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں . ملک میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بہت کم ملتے اور اکثر جگہ میرٹ کی پامالی ہوتی اس صورت حال میں نوجوان اپنا گھر بار ، رشتے ناتے سب کچھ چھوڑ کر روزگار کے سلسلہ میں دیار غیر میں مقیم ہو جاتے ۔ دیار غیر میں زندگی بسر کرنا آسان نہیں جہاں ہر گزرتا دن مہینے اور سال کے برابر ہوتا ہے۔ دیار غیر میں مقیم ہمارے کشمیری اور پاکستانی بھائیوں کو کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور جو عظیم تر صدمہ دیارغیر میں برداشت کرنا پڑتا وہ قریبی شخص کے انتقال کا صدمہ ہے ۔ قریبی شخص کے انتقال کا صدمہ کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہونا ایک بڑا صدمہ ہے۔ جس سے ہر شخص کو جلد یا دیرسے برداشت کرنا پڑتا ہے . کسی فرد کو جب اپنے قریبی ہستی کے انتقال کی خبر ملتی تو اس کو جو صدمہ پہنچتا ہے ۔ وہ کچھ وقت یا کچھ گھنٹوں کے لیے اس کو عمر بھر وہ گھڑی یاد رہتی ...
ریٹائرڈ اورڈھلتی عمر کے افراد اور حیاتِ نو- پروفیسر خالد اکبر

ریٹائرڈ اورڈھلتی عمر کے افراد اور حیاتِ نو- پروفیسر خالد اکبر

آرٹیکل
وہاں  کے نفسیا ت دانوں، محققین اور ارباب صحت کو اس بات کی تشویش ہوئی..اور بہت زیادہ ہوئی کہ ایک ایسا ملک جس میں ایک فرد کی اوسط عمر 70سے 75سال ہے وہاں ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد اچھے خاصے صحت مند اور دوران ملازمت تندرست و توانا ملازمین اتنے جلدی کیوں مر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح وہاں ایسے مظاہر  اور غیر معمولی واقعات پر   مٹی پانے یا فطرت کا ازلی نوشتہ تصور کرنے کا رواج نہ تھا۔پس  سنجیدہ تحقیق ہوئی،عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے، اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے۔پھر جدید تجزیاتی آلات شماریات سے تحقیق کر کے یہ نتائج اخذ کیے گئے کہ اس  مخصوس طبقہ کے  افراد   میں  قبل از وقت مرگ کی بڑی وجہ پیشہ وارانہ تگ ودو اور مثبت سرگرمیوں کی ایک مسلسل مدت بسیار کے بعدیک دم معطلی  ہے۔ لہذا سفارش کی گئی کہ ریٹائر ڈ افراد  کو بچایا جائے اوران کے  بیش بہا علمی و انتظامی تجربات سے فائدہ اٹھا یا جائے۔۔ ان کے لئے ای...
لوجہاد ،  ش  م   احمد

لوجہاد ، ش م احمد

افسانے
 جمنا دیوی کی زندگی کی تمام آرزوئیں پوری ہوچکی تھیں ۔ دھن دولت، ٹھاٹ بھاٹ، بڑا نام کیا کچھ نہیں تھااس کےپاس ۔ اب اُس کی صرف دو ہی حسر تیں تھیں کہ اپنی اکلوتی بیٹی نیلم کے ہاتھ پیلے کرے اورپھر اپنے بیٹے سنجے کی شادی کرکے ستی ساوتری جیسی بہو گھر لائے اور پھر ہری دوار سے ہوآئے ۔ جمنا کی یہ حسرتیں گزشتہ دودنوں سے نیلم کا مر جھا ہوا چہرہ دیکھ دیکھ کر انجانے خوف سے بدل رہی تھیں۔ وہ خود سے سوال کرتی یہ سب کیا ہے کہ نیلو میرےجیتے جی مررہی ہے، اُس کی زندگی میں کون سی کمی ہے ، اونچے برہمن گھرانے کی اکلوتی بیٹی، بلا کی خوب صورت ، پتا جی دیش کااتنا بڑا نیتا ،بھائی کئی فیکٹریوں کا مالک، بڑے بڑے گھرانوں سے رشتوں کے ڈھیر ، نوکر چاکر گاڑیاں ، عیش و آرام ، بھگوان کی دَیا سے کوئی کمی نہیں. تو کیا وجہ ہے کہ نیلم ا تنی دُکھی بیٹھی ہے کہ بھوک پیاس بھی برداشت کررہی ہے۔    جمناآج ایک ب...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact