Friday, April 19
Shadow

Day: January 23, 2021

شفیق راجہ: دشت خیال کا مسافر

شفیق راجہ: دشت خیال کا مسافر

شخصیات
تحریر: پی۔ ایچ۔ طائر شفیق راجا اردو شاعری میں نووارد نہیں اسے اس دشت کی سیاحی میں تقریباً نصف صدی ہو چکی ہے ۔ 1968ء میں ہائی سکول باغ کو انٹر میڈیٹ کالج کا درجہ دیا گیا۔ اس سے دو برس پہلے میں اپنی تعلیم نامکمل چھوڑ کر روزنامہ مساوات لاہور کے ادارتی عملے میں شامل ہو چکا تھا۔ ( میرا تعلق چراغ حسن حسرت، ضیاء الحسن ضیاء اور سراج الحسن سراج کے خاندان سے ہے۔ اس نامور کنبے کا فرد ہونے کے باعث میرا ''مساوات '' میں شامل ہونا اچنبھے کی بات نہیں تھا)۔ اپنے قصبے میں کالج کے قیام کی خبر نے میرے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی خواہش کو مہمیز کیا اور میں صحافت چھوڑ کر ایک بار پھر کالج میں داخل ہو گیا۔ باغ میں نئے کالج کی اس سب سے پہلی کلاس میں میرے پرانے کلاس فیلو بھی تھے اور نئے ، تازہ میٹرک پاس طلباء بھی۔ ان نئے لڑکوں میں میرا پڑوسی شفیق بھی تھا۔ اسے میں پڑوسی ہونے کی وجہ سے پہلے سے جانتا تھا ۔ ہم...
حویلی برف کی لپیٹ میں

حویلی برف کی لپیٹ میں

تصویر کہانی
کہانی کار:   شمائلہ عبیر چوہدری   /  تصاویر: چوہدری بشارت حویلی آزاد کشمیر برف باری کے بعد خوبصورتی کا عکس پیش کر رہا ہے۔ کہیں جھاڑیاں برف تلے دبی ہیں تو کہیں سڑک پر چلنے والا۔ ہر فرد اپنے نشان چھوڑے دور تک اپنی منزل کا پتہ دے رہا ہے ۔ چڑھتے سورج کو ہی دیکھ لیں ۔کیسے چراغ سی روشنی بکھرتا ہوا ابھر رہا ہے اور ذرا بلند ہوتے ہی سفید برف پر سنہری و آتشی روشنی بکھر رہا ہے ۔پھر پہاڑی جانور کتنی جانفشانی سے اپنا رزق تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔یہی کشمیر کی خوبصورتی کے مختصر عکس ہیں۔ ...
آٹھ آنے کی کہانی

آٹھ آنے کی کہانی

افسانے
سید شبیر احمد ستر کی دیہائی کے آخری سالوں میں آزاد کشمیر کے اس چھوٹے سے قصبے کی برانچ میں بطور مینیجر میری پوسٹنگ ہوئی تھی۔ مجھے چارج لئے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ میں برانچ کے دو تین بڑے کھاتہ دار دکانداروں سے ملنے اپنے سپروائزر کے ساتھ بازار میں آیا۔ ایک دکان سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو وہ اچانک میرے سامنے آ گیا اور ہاتھ پھیلا دیا۔ آٹھ آنے ہوں گے۔ میں اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا۔ دھول سے اٹے جھاڑجھنکار سر کے لمبے لمبے بال اور اسی سے ملتی کھچڑی داڑھی۔گندے لمبے ناخن، میل سے سیاہ ہاتھ و چہرا۔ مٹی سے اٹے ہوئے سیاہی مائل کپڑے۔ میں اچانک اسے سامنے پا کر ششدرہو کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر دوسری طرف مڑ گیا۔ سپر وائزر نے بتایا، سر جی یہ پاگل سا آدمی ہے، ایسے ہی پیسے مانگتا رہتا ہے۔ لیکن کسی کو کہتا کچھ نہیں ہے۔ ہم پھر دوسری دکان کی طرف چل دیے۔ اس کے بعد اکثر وہ آتے جا...
مری بروری

مری بروری

تصویر کہانی
کہانی کار: عامر عباسی یہ عمارت مشہورِزمانہ کمپنی مری بروری  کی  فیکٹری کی ہے۔ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے ڈیڑھ صدی قبل گوتھک طرزِ تعمیر پہ بنی اس عمارت کے کھنڈرات نہ دیکھے ہوں۔  اگر آپ اسلام آباد سے مری براستہ مری کشمیر روڈ جائیں ۔ تو تقریباً چالیس کلومیٹر کے بعدگھوڑا گلی اور بانسرہ گلی کے درمیان میں بروری نام کا ایک گاؤں آتا ہے۔  اور اسی مقام پر یہ عمارت آپ کو نظر آۓ گی۔ با ذوق لوگوں کو تو اس کی تاریخ خوب معلوم ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اس قسم کے شوق نہیں پال رکھے ان کے لیےعرض ہے۔  کہ یہ عمارت پاکستان کی مشہور کمپنی مری بروری کی فیکٹری ہوتی تھی۔ اور یہاں پر مشروبِ مغرب کشید کیا جاتاتھا۔ تقریباً ڈیڑھ صدی قبل اس کو انگریز سرکار نے تعمیر کیا تھا اور اس کا مقصد گھوڑا گلی میں موجود اپنے انگریز فوجیوں کاخون گرم رکھنا تھا۔  قیامِ پاکستان کے وقت اس عمارت کو جل...
چار بوتل خون

چار بوتل خون

آرٹیکل, افسانے
صغیر قمر  شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔بارش اور دھند کی وجہ سے ماحول جلد تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ سری نگر کی سڑکوں پر حسب معمول ویرانی نظر آ رہی ہے۔ اکا دکا گاڑی یا رکشا گزرنے سے خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔ غلام قادر نے ورکشاپ کا دروازہ بڑی بے دلی سے بند کیا۔ اس نے اپنی پھٹی پرانی فیرن کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دن بھر کی کمائی جو اسے ورکشاپ کے مالک نے دی تھی جیب میں پڑی تھی۔ غلام قادر نے حقارت سے کندھے اچکائے‘ جیسے اسے یہ چند روپے محنت کے بدلے نہیں بھیک میں دیے گئے ہوں۔”آج کل تو اتنی بھیک بھی کوئی نہیں دیتا۔“ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور بیساکھی اٹھا کر چل پڑا۔اس کی بیساکھی کی آواز نے ماحول کے سکتے کو پھر توڑ دیا۔ آج نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال در آیا تھا کہ وہ لال چوک سے ہو کر گزرے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جب سے کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا ہے‘ لال چوک مں موت کا سناٹا رہتا ہے...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact