write your article here فاروق اسیر غزل آنکھ دوارے خواب ستارے اچھے لگتے ہیں سوچ میں ڈوبے نین تمہارے اچھے لگتے ہیں پیار میں اک دوجے کی بپتا من میں کُھبتی ہے باہم ہوں جو سوچ کے دھارے اچھے لگتے ہیں من مندر میں میرے بھی اک دیوی رہتی ہے سوچ کے اُس کو منظر سارے اچھے لگتے ہیں تیرے سنگ جن رستوں پر ہم گھوما کرتے تھے ابھی تلک وہ رستے سارے اچھے لگتے ہیں تیری یادیں وابستہ فاروق اُ ن راہوں سے جب بھی جاؤں جھیل کنارے اچھے لگتے ہیں Related Post navigation یہ بھیک نہیں آزادی ہے شب گزیدہ سحر