Friday, April 19
Shadow

Tag: پروفیسر خالد اکبر

Prof Khalid Akbar

روشنی کا مینار معلمہ :  محترمہ سائرہ / پروفیسر خالد اکبر

روشنی کا مینار معلمہ : محترمہ سائرہ / پروفیسر خالد اکبر

شخصیات
عالمی یوم اساتذہ پر ایک عظیم معلمہ کو خراج عقیدت پروفیسر خالد اکبر ان کے نام سے میں واقف تھا... وہ  پس منظر میں رہ کر سارے کھیل کو ڈائریکٹ کرتی ہیں۔۔ وہ سلف میڈ ہیں۔ ۔ محدود وسائل کے باوجود اپنی سیلف ڈیولپمنٹ اور ذہنی نمو میں تسلسل سے بہتری اور اضافہ کے رستہ پر گامزن ہیں۔۔ ان باتوں کو  میں سر سری طور پر جانتا تھا۔۔ان کا محدود  سا علم  مجھے  تھا کیونکہ وہ میرے بچوں کے اسکول کی  کرتا دھرتا,مربی اور بڑی انتظامی آفیسر تھی  ۔وہ اچھی استاد,اعلی منصرم,اور مشفق انسان ہیں۔ایسی با تیں بچوں کی زبانی  اکثر سماعتوں سے  ٹکرائی رہتی تھی۔۔ پھر ایک دن بچوں کو اسکول سے واپسی پر بہت مغموم پایا تو استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ میم سائرہ وینٹیلیٹر پر ہیں! ! کرونا نے ان کو بھی اپنے ظالم پنجوں میں دبوچ لیا ہے۔ ان کی حالت نازک ہے! یوں چند دنوں  میں ہی وہ&nbs...
سفر نامہ ہندوکش کے دامن میں پر تبصرہ. پروفیسر خالد اکبر

سفر نامہ ہندوکش کے دامن میں پر تبصرہ. پروفیسر خالد اکبر

تبصرے
تبصرہ. پروفیسر خالد اکبر‎جاوید خان کاپہلاسفر نامہ ’عظیم ہمالیہ کے حضور‘شائع ہوا تو راقم الحروف کو اس کے اولین قارئین میں شامل ہونے کا مو قع ملا۔پہلاتبصرہ بھی راقم نے کیا چونکہ جاوید خان ہمارے عہد رفتہ کے ہونہار طلبہ کی فہرست میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی ہیں۔اوربطور قلم کار اورکالم نگار ہمیں متاثر ہی نہیں کا فی معتقد بھی کر چکے ہیں۔ہماری طرف سے اس اولین تبصرہ کو یار لوگوں نے غلو اور ہائپربولک‎قرار دیا۔‎ہم اپنی جگہ خوش اور صد فی صدی پُر سکون تھے کہ ہم نہ کوئی پیشہ ور تبصرہ نگار ہیں نہ ہی اس طرح کی کسی کاو ش کاحصہ ہیں۔بلکہ ایک مبتدی اور گوال گدرے سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں۔البتہ ہر دور  میں سفرنامے ہمارے بے قاعدہ مطالعہ کے علاقے رہے ہیں۔‎محمود نظامی کے سفرنامہ ’نظرنامہ‘سے لے کر ’آواگون تک‘جو بھی ہمارے ہتھے چڑھا ہم نے پڑھنے کی کوشش ضرور کی۔اپنی اس کہج فہمی اور لاشعوری معلومات کے ب...
کچھ ماضی کے جھروکوں سے  !  تحریر : پروفیسر خالد اکبر

کچھ ماضی کے جھروکوں سے ! تحریر : پروفیسر خالد اکبر

آرٹیکل
       تحریر : پروفیسر خالد اکبر   ۲۲اپریل سرکاری کاغذات و اسناد کے مطابق ہمارا جنم دن ہے۔ سوشل میڈیا پر اس دن مبارکباد کے کئی پیغامات موصول ہوئے۔ ایک ساعت کے لیے یہ سب بھلا لگا مگر زماں و مکاں سے بالا، تخیل کی آنکھ دور ماضی میں لے گئی اور موڈ کچھ نرگسیت زدہ سا ہو گیا۔ ذرائع ابلاغ کی حیرت انگیز ترقی،ٹی وی، انٹر نیٹ  اور سوشل میڈیا کی آمد سے قبل اس طرح کی باتیں اور اس قسم کے دیگر ایام کو یاد کرنا  اور  مناناعنقا تھا۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے  کبھی اپنی سالگرہ منائی ہو۔ بلکہ کھرا سچ تو یہ ہے ہمارے ابو جو  تھوڑے   بہت  پڑھے لکھے تھے ان کے دنیا فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے پرانے کاغذات، ڈائریوں اور زمینوں کے کاغذات کے بیچوں بیچ ان کے ہاتھ سے لکھی ایک ڈائری اتفاقاََ ہمارے ہاتھ لگی۔ جسے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے ریکارڈو اسناد میں درج عمر سے...
باغ وبہاراں شخصیت کے مالک پرنسپل شوکت حسین ، تحریر : پروفیسر خالد اکبر‎

باغ وبہاراں شخصیت کے مالک پرنسپل شوکت حسین ، تحریر : پروفیسر خالد اکبر‎

آرٹیکل
تحریر : پروفیسر خالد اکبر اُس کی امیدیں قلیل اُس کے مقاصد جلیل                 نرم      دم   گفتگو ،گرم     دم جستجو  سرخ اور سپید چہرہ،کشادہ پیشانی،دراز قد،گرجدار آواز، چہرے پر  تمکنت ،اُجلا لباس اور ہجوم میں نمایاں دیکھائی دینےوالے باغ وبہاراں شخصیت کے مالک پرنسپل شوکت  حسین ا لمعروف ڈی پی شوکت  صاحب کے بارے میں ایک  نظر یا  ایک ملاقات میں رائے قائم ک...
بنجونسہ جھیل کی توسیع : مضمرات اور امکانات،  پروفیسر خالد اکبر

بنجونسہ جھیل کی توسیع : مضمرات اور امکانات، پروفیسر خالد اکبر

آرٹیکل
بنجونسہ جھیل کو پورے پونچھ ڈویژن میں بالخصوص اور پورے آزاد کشمیر میں بالعموم سیرو سیاحت کی سرگرمیوں کا Hubاور علامت قرار دیا جائے تو یہ بات کسی بھی قدر مبالغہ آمیز نہ ہوگی۔ گھنے جنگلات، صنوبر، دیاروں اور بیاڑ کے دیو قامت درختوں کے دامن میں واقع یہ جھیل اپنے دلفریب نظاروں کے سبب سیاحوں کے لیے سحر انگیزی اور دلر بائی کا باعث ہے، جوہر طرح کے موسم میں سیاحوں کے لیے رعنائیوں  او رسرمستیوں کا سامان رکھتی ہے۔ یخ بستہ اورمنجمد کرنے والی سردی اور کُہرمیں یہ جھیل جب سخت برف کی دبیز چادر اوڑھتی ہے توملک کے طول وعرض سے آئے ہوئے کئی کھلنڈرے اورمہم جو سیاح اسکی  جمی ہوئی سطح پراٹھکیلیاں بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں! بہار کے موسم میں جھیل کا پانی آس پاس کے درختوں اور سبزہ کے رنگ میں یک رنگ ہو کر ایک رومانوی اور حسین شکل اختیار کرتا ہے۔ تو پورے ملک  سے سیاحوںکاا ایک انبوہ اُمڈ آتا ہے۔ ...
ریٹائرڈ اورڈھلتی عمر کے افراد اور حیاتِ نو- پروفیسر خالد اکبر

ریٹائرڈ اورڈھلتی عمر کے افراد اور حیاتِ نو- پروفیسر خالد اکبر

آرٹیکل
وہاں  کے نفسیا ت دانوں، محققین اور ارباب صحت کو اس بات کی تشویش ہوئی..اور بہت زیادہ ہوئی کہ ایک ایسا ملک جس میں ایک فرد کی اوسط عمر 70سے 75سال ہے وہاں ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد اچھے خاصے صحت مند اور دوران ملازمت تندرست و توانا ملازمین اتنے جلدی کیوں مر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح وہاں ایسے مظاہر  اور غیر معمولی واقعات پر   مٹی پانے یا فطرت کا ازلی نوشتہ تصور کرنے کا رواج نہ تھا۔پس  سنجیدہ تحقیق ہوئی،عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے، اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے۔پھر جدید تجزیاتی آلات شماریات سے تحقیق کر کے یہ نتائج اخذ کیے گئے کہ اس  مخصوس طبقہ کے  افراد   میں  قبل از وقت مرگ کی بڑی وجہ پیشہ وارانہ تگ ودو اور مثبت سرگرمیوں کی ایک مسلسل مدت بسیار کے بعدیک دم معطلی  ہے۔ لہذا سفارش کی گئی کہ ریٹائر ڈ افراد  کو بچایا جائے اوران کے  بیش بہا علمی و انتظامی تجربات سے فائدہ اٹھا یا جائے۔۔ ان کے لئے ای...
رفتگا ن دل میں بسا کر تے ہیں کیسے کیسے

رفتگا ن دل میں بسا کر تے ہیں کیسے کیسے

شخصیات
مر حوم  ڈی آئی جی  الیاس کی یاد میں  پروفیسر خالد اکبر     بیتے دنوں کی بات ہے۔ ہم جامعہ کشمیر  میں  انگر یزی  زبان و  ادب میں ما سٹر ڈگری کی دیر ینہ خوا ہش  دل میں سمائے  داخل  ہو ئے۔ انگر یزی زبان کی ہماری  شُدبُد اور آگہی روا یتی اداروں میں پڑھنے اورکچھ  اپنی عدم دلچسپی کے سبب  کمتر سطح بلکہ نہ ہو نے کے برابر تھی۔ تاہم جا معہ میں اساتذہ  کا معیار اور طریقہ تد ریس وا قعی اس سطح کے طلبہ سے صحیح معنو ں میں ہم  آہنگ تھا۔ ابتدائی دنو ں میں کمرہ جماعت میں دا خل ہو تے ہی ہمار ی  شو خی گم، زبانیں گنگ اور ہونٹ سی جاتے۔ ا ردو کے فقرات کو انگر یزی میں  ڈھالنے کا جا نکا ہ اور طو فا نی سلسلہ دماغ میں اٹھتا ۔ اور  بھا ری بھر کم  رکا وٹیں  اپنے سامنے دیکھ کر اپنی مدد آپ کے تحت ہی بیٹھ جا تا۔ جملے زبان  پر پہنچنے سے قبل حلق میں اٹک کر رہ جاتے۔ پوری جماعت ہی س...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact