Thursday, April 25
Shadow

Tag: عشق

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے, کہانی
پروفیسررضوانہ انجم مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔ لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔ شاید وہ کمرے کے درو...
دئیےامید کے ۔۔۔ مظہراقبال مظہر

دئیےامید کے ۔۔۔ مظہراقبال مظہر

شاعری
//مظہراقبال مظہر خواب ،آنکھیں، رتجگے سب استعارے تم سے ہیں جگنو، روشنی ، چمک ، چاند سب ستارے تم سے ہیں ہمدم ، ہمنفس و ہم نوا سبھی سبیلیں صورت آرائی کی یوں تو لفظ مگر یہ نام سارے تم سے ہیں ٹھہرگئے تو بار گراں بہے تو سیل رواں بہت ناز ہے جن پر سبھی سہارے تم سے ہیں خستہ حالی وشکستہ پائی یہ تو ہمارا عذر ٹھہری رہ عشق کے یہ خار سارے تم سے ہیں شام پڑتے ہی جنہیں طاقوں پر سجا لیتے ہیں ہیں دئیے امید کے مگر سارے تم سے ہیں (مظہر اقبال مظہر) ...
عبدالرزّاق بےکل کی غزل

عبدالرزّاق بےکل کی غزل

شاعری, غزل
ہوتی  نہیں  ہر   بات   کِسی  بات  سے  مشروطوہ عِشق  ہی کیا  ہو جو کِسی ذات سے مشروطقربت ہے تو کیونکر  ابھی حالات  سے  مشروطکیا  دِن  کا   اجالا  ہے   گئی  رات  سے  مشروطموقوف   تواضح    پہ    محبّت     نہیں   ہوتیہو   گی    نہ    ملاقات    مدارات  سے  مشروطہم  ایسے تو  فاقوں سے  ہی  مر جاتے ابھی تکہوتا   جو    یہاں   رزق    عبادات  سے  مشروطمحفوظ  نہ  دیکھے  کہیں   ذی  روح  زمیں  پرہے زیست  ابھی  ارض و سماوات  سے  مشروطصد حیف جو  دنیا ہے  یہ الفت  سے تہی دست ہو  گا   نہ  کبھی   پیار   مفادات  سے  مشروطکیا   خاک   رویّہ   ہے    اکابر    سے    یہ   تیراہوں  گی  نہ  دعائیں  تِری اوقات  سے  مشروطحاصِل  ہوئی  از خود  جو   اسے  دولتِ تخئیل اِنسان  کی  عظمت  ہے  خیالات  سے  مشروطارفع   ہیں   وہی  لوگ   جو  کرتے  ہیں  مشقّتیارو ابھی دن رات   ہیں  حرکات  سے  مشروطدیکھی  وہ   جو    تبخیر   حرارت   ...
آٹھ آنے کی کہانی

آٹھ آنے کی کہانی

افسانے
سید شبیر احمد ستر کی دیہائی کے آخری سالوں میں آزاد کشمیر کے اس چھوٹے سے قصبے کی برانچ میں بطور مینیجر میری پوسٹنگ ہوئی تھی۔ مجھے چارج لئے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ میں برانچ کے دو تین بڑے کھاتہ دار دکانداروں سے ملنے اپنے سپروائزر کے ساتھ بازار میں آیا۔ ایک دکان سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو وہ اچانک میرے سامنے آ گیا اور ہاتھ پھیلا دیا۔ آٹھ آنے ہوں گے۔ میں اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا۔ دھول سے اٹے جھاڑجھنکار سر کے لمبے لمبے بال اور اسی سے ملتی کھچڑی داڑھی۔گندے لمبے ناخن، میل سے سیاہ ہاتھ و چہرا۔ مٹی سے اٹے ہوئے سیاہی مائل کپڑے۔ میں اچانک اسے سامنے پا کر ششدرہو کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر دوسری طرف مڑ گیا۔ سپر وائزر نے بتایا، سر جی یہ پاگل سا آدمی ہے، ایسے ہی پیسے مانگتا رہتا ہے۔ لیکن کسی کو کہتا کچھ نہیں ہے۔ ہم پھر دوسری دکان کی طرف چل دیے۔ اس کے بعد اکثر وہ آتے جا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact