بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم
پروفیسررضوانہ انجم
مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔
لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔
شاید وہ کمرے کے درو...