Thursday, April 18
Shadow

Tag: افسانہ

کتاب کا نام ۔۔۔۔ “گونگے لمحے”/ مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین

کتاب کا نام ۔۔۔۔ “گونگے لمحے”/ مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین

تبصرے
صنف ۔۔۔۔۔ افسانہمصنفہ ۔۔۔۔ شفا چودھریمبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پرویناشاعتی ادارہ۔۔۔۔۔۔ پریس فار پیس (لندن)وہاڑی (جنوبی پنجاب) کی سونا ،چاندی اور  مٹھاس اگلتی سر زمین سے تعلق رکھنے والی خوش اخلاق ، خوش مزاج اور دردِ دل کی مالک شفا چودھری (بازغہ سیفی) ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی صلاحیت سے مالامال ہیں  تاہم ان کا خاص میدان افسانہ نگاری ہے۔ حساس اور منفرد موضوعات پر نفسیاتی الجھنوں اور گرہوں کو بیان کرتے ان کے افسانے شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔                تعارف و تبصرہ                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی کتاب کا سرورق کتاب کی قرأت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔  "گونگے لمحے" کے پر تجسّس عنوان سے مطابقت رکھتا تجریدی انداز کا حامل سرِورق  قاری کو ایسی گونگی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے جس ...
افسانہ : قصوروار کون ؟ تحریر : ثناء ادریس

افسانہ : قصوروار کون ؟ تحریر : ثناء ادریس

افسانے
تحریر : ثناء ادریس"گاڑی روکو ..! گاڑی روکو ..! "اسکول سے واپسی پر دس سالہ امجد نے ڈرائیور کو اتنی زور سے کہا کہ اس نے گھبرا کر ایک دم بریک مار دی ۔گاڑی کے پیچھے آتی موٹر سائیکل اس افتاد سے بے خبر تھی ۔ اچانک لگتی بریک کی وجہ سے موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکرا گئی ۔ جس سے گاڑی کے پچھلے حصے کو نقصان پہنچا ۔ اور موٹر سائیکل سوار خود زمین پر جا گرا ۔ ڈرائیور نے سائیڈ کے شیشے سے دیکھا اور تیزی سے اترا ۔ موٹر سائیکل والے کو گریبان سے پکڑا اور بنا اس کی بات سنے کئی تھپڑ رسید کر دئے۔"تمہیں نظر نہیں آتا ۔ کتنا بڑا نقصان کر دیا ۔" ڈرائیور چلا رہا تھا ۔"بھائی غلطی آپ کی ہے ۔ آپ آگے تھے اور اچانک بریک بنا انڈیکیٹر دئے آپ نے ماری ۔" موٹر سائیکل والا خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ ایک بھیڑ جمع تھی ۔ کوئی موٹر سائیکل سوار کی طرف داری کر رہا تھا تو کوئی گاڑی والے کی ۔ ا...
کاش او ویلا فر اچھہ اوٹھی (پہاڑی افسانچہ) شاہزیب اشعر

کاش او ویلا فر اچھہ اوٹھی (پہاڑی افسانچہ) شاہزیب اشعر

افسانے
رستچ جلنیا اس ایک کویّا جٹھا۔ اس اپنے کلاسیے نی انہوار آئ۔ اس لغا کہ ایہہ دا لیکن فری اس سوچیا یو نا وے کوئ اور اس جیا وے۔ طارق چپ لنگیا۔ جیرا ایک آگیں گا تہ اس کنڈی ہا آواز آئ۔ او طارقہ میں لہ مڑ۔ آواز جانی پہچانی سی ۔ ہاۓ بختہ اوؤے یو تو زی۔ پتلون بُرشَٹ لائ نی۔ متھیر تیل ملیا نا۔ فل بابو بنتا نا زی۔ انہوار تہ آئ فیر سوچیا تھوخا نہ وے۔ کہان ملیشیں نا کڑتا تمی تہ کہان پتلون بَرشَّٹ۔ مہ لغا اے نی تو ایہہ عظیم دی۔ لِمّاں نا۔ عظیم آخنیس۔ کہ دسی طارقہ او ویلے بہوں یاد اینے دے۔ جدوں تختی دوات تہ نالیں نیا قلماں اننی ملیشیںے نے کپڑے لائ تہ ربڑے نی پمپی لائ گینے سیاں۔ اس ٹھل اپر بیٹھی پڑنے سیاں۔ اوۓ عظیماں جل اس خوہے اپر بجی چا پینیا ۔ آخاں تہ گل بانا سیس کہ یا دیے جدوں ایک واری آسیں سوق نیسا اینا تہ آسیں چھپی تہ سندھچ تَرۓ نا پروگرام منایا تہ ماسٹر رستچ پوڑیا سا تہ جتنی چہ...
اردو افسانہ درد کے موسم

اردو افسانہ درد کے موسم

افسانے
انجم قدوائی جھیل کے پانی پر چنار کے زرد پتے تیر رہے ہیں اور پہاڑ خوف زدہ سانس روکے کھڑے ہیں۔کبھی یہی پہاڑ برف کا سہارا لے کر ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوتے ، تو کبھی ہرے سنہرے سرخ اور زرد پتوں والے درخت شاد ہو کر جھومتے، سیب ، انگور اور اخروٹ کی ٹہنیاں فضا میں خوشبوئیں بکھیرتیں،  زعفران کے کھیت ہنستے اور شکاروں کے سائے جھیل میں گد گدی پیدا کرتے۔ رنگین پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمگی بکھیر دیتی۔ موسم بدلتا تو پوری وادی مہمانوں کی خاطر میں لگ جاتی شکاروں پر نئے پردے لگا ئے جاتے۔سڑکوں پر دور دور سے آئے ہوئے قافلے ہنستے کھلکھلاتے تمام قدرتی منا ظر سے مبہوت ہوکر شاد ہوجاتے ۔بلند وبالا پہاڑوں پر جمی شفّاف برف کے سائے میں تصویریں اتُاری جاتیں یادگار کے طور پر ڈھیروں سامان خریدا جاتا ۔اگر برف باری ہوجاتی تو گویا قافلوں کی قسمت کھلُ جاتی وہ ان حسین نظاروں کو دل میں چھپُا لیتے ۔خوش وخرم ن...
بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے, کہانی
پروفیسررضوانہ انجم مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔ لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔ شاید وہ کمرے کے درو...
ٹیٹوال کا کتّا- سعادت حسن منٹو

ٹیٹوال کا کتّا- سعادت حسن منٹو

افسانے
افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے آبا علامہ اقبال کی طرح کشمیری الاصل تھے اور کاروبار کے سلسلہ میں کشمیرسے ترک وطن کرکے لاہورمیں آبسے اور پھر وہاں سے امرتسرچلے گئے۔ منٹوکی شادی بھی ایک کشمیری النسل لڑکی صفیہ سے ہوئی۔منٹو کو تقسیم کی وجہ سے بمبئی چھوڑکرلاہورآناپڑا۔ منٹونے کشمیرکو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔اس کے اس سلسلہ میں دوافسانے مشہور ہیں جو وادی نیلم کے گاﺅں ٹیٹوال کے گردگھومتے ہیں جو ہندوستانی کشمیرکاایک سرحدی گاﺅں ہے۔ان میں ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور’آخری سیلیوٹ‘ شامل ہیں۔ یہ دونوں افسانے 1951 کے اواخرمیں لکھے گئے- ٹیٹو ال کا کتا سعادت حسین منٹو کا شاہکار افسانہ ہے جو کشمیر کی وادی نیلم کے ایک گاؤں کے پس منظر میں لکھا گیا - وادی نیلم اس علاقے کو ٹیٹوال سیکٹر بھی کہا جاتا ہے - ٹیٹوال اب بھارتی مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے اور وادی نیلم کے چلہانہ گاؤں سے  دیکھا جا سکتا ہے ۔ گاؤں ٹیٹوال/ فو...
افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

افسانے
آرٹ ورک سب رنگ انڈیا/ روی روراج    ’’کالے قانون کی واپسی نہیں ، گھر واپسی نہیں‘‘  اپنے بھاشن کے اختتام پر کسان نیتا کا اتنا بولنا تھا کہ ستنام سنگھ کی رَگ رَگ میں جوش کی بجلی دوڑ گئی:  ’’ کسان ایکتا‘‘  ستنام اُٹھ کھڑا ہوا ، مٹھیاں بھینچ لیں، ساری قوت کو زبان پر جمع کر کے تین زرعی قوانین کو ردکرنے کا مطالبہ نعرے میں ڈھالا ۔  ’’زندہ باد‘‘ ہزاروں آندولن کاریوں نے بآواز بلند نحیف ونزار اور بیمارکسان کے نعرے کا جواب دیا : ستنام سنگھ نوے سال کی پختہ عمر کابزرگ آندولن کاری کسان ہے۔ باپ دادا سے وراثت میں ملی دس بیگھہ زمین کو اَن داتا سمجھتااور کرم بھومی کہتا ہے۔ کھیتی کسانی کر تے ہوئے گوربانی اور بھجن دل کی دھڑکنیں بنانے والا بوڑھا کسان آج گھر سے بہت دور دلی کے سنگھو بارڈر پر مورچہ زن ہے ، معمولات یکسر بدلے بدلے ہیں کہ اس خیمہ بستی میں نعرے ہیں،احتجاجی ترا...
جموں وکشمیر میں اردو افسانہ کی روایت

جموں وکشمیر میں اردو افسانہ کی روایت

آرٹیکل, اردو
خاور ندیم، اسسٹنٹ پروفیسر اردو، ڈگری کالج باغ  انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے کئی علاقوں اور مراکز سے مختلف سیاسی مذہبی اور ادبی شخصیات کشمیر آئیں۔ ان شخصیات میں حفیظ جالندھری ، نواب جعفر علی خان ، مولانا ظفر علی خان، خوشی محمد ناظر، ڈاکٹر خواجہ غلام السیدین، پنڈت برجموہن دتا تریہ کیفے، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور دیگر شامل تھے۔ ان اہل علم شخصیات کے کشمیر آنے سے کشمیر میں اردو شعر و ادب کو فروغ ملا۔ ریاست جموں و کشمیر میں محمد دین فوق اور چراغ حسن حسرت اردو شعر و ادب کے حوالہ سے معتبر شخصیات موجود تھیں جو اردو ادب کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ محمد دین فوق نے تاریخ ، سوانح، سیاست اور سیاحت کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ چراغ حسن حسرت صحافی، شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ ان کے علاوہ پریم ناتھ درد، سراج الحق ضیائ، حشمت اللہ خان، غلام احمد کشفی اور لال ذاکر نے کشمیر میں مختلف اصناف ادب کو ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact