Thursday, April 18
Shadow

تصویر کہانی

سلیم الرحمان سے ملاقات / کہانی کار: جہانگیر تاج مغل

سلیم الرحمان سے ملاقات / کہانی کار: جہانگیر تاج مغل

تصویر کہانی
تحریر و تصویر: جہانگیر تاج مغلگزشتہ سال ڈاکٹر سلیم الرحمن پاکستان تشریف لاۓ ۔ جب انھوں نے آمد کی خبر دی تو دل ان سے ملنے کو بے تاب ہونے  لگا ۔ چوں کہ طویل مسافت کر کے پاکستان پہنچے تھے ۔ ایک طرف طویل سفر کی تھکاوٹ اور دوسری طرف رشتہ دار مسلسل ملاقات کو آرہے تھے تو اس نا چیز کو غالباً دس دن بعد شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ خیر ایک دوپہر ان کا ہنگامی فون آیا کہ دو دن بعد میری واپسی کی فلائیٹ ہے آج تین ساڑھے تین بجے آپ آجائیں ۔  تو میں غالباً ساڑھے تین بجےان کے مغل پورہ میں واقع گھر کو تلاشتا پہنچ گیا ۔ بہت تپاک سے ملے اور کم و بیش دو گھنٹے تک ان سے گفتگو ہوئی جس کی میں نے ریکارڈنگ بھی کی تھی ۔بعد ازاں ان سے دسخط شدہ کتابیں تحفے میں ملیں ملیں اور میں نے انھیں مقالے کی کاپی پیش کی تو بہت خوش ہوۓ ۔                       سلیم الرحمن صاحب کا شمار نئی شاعری کے ایک معتبر حوالے کے طور پر ہوتا ہے ۔ وہ  اس ...
سوانح حیات : نایاب ہیں ہم سے انتخاب/ ڈاکٹر صابر آفاقی

سوانح حیات : نایاب ہیں ہم سے انتخاب/ ڈاکٹر صابر آفاقی

تصویر کہانی
ڈاکٹر صابر آفاقیاس تحریر کے ساتھ تصویر بوسہ گلہ  ضلع پونچھ  (کشمیر) کی ہے۔ ( 1959)آخر کار سات سال کے بعد میرا نمبر آگیا تو مجھے سینئر ٹیچر کا گریڈ دے کر 1858 میں پونچھ کے بوسہ گلہ ہائی سکول میں بھیج دیا گیا ۔مئی کے مہینے میں میرا تبادلہ ہوا۔مظفر آباد میں عبد الغنی غنی میرے دوست تھے۔ ان سے ملا تو وہ کہنے لگے: بوسہ گلہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر میرے دوست اور پونچھ شہر کے مہاجر ہیں ،وہ آپ کو خوش رکھیں گے۔ چنانچہ میں نے کالی شیروانی بنوائی کہ اب ترقی مل گئی ہے ۔ایک دن باغ جانے والی ٹوٹی پھوٹی بس میں بیٹھ کر گیا ۔منگ بجری پہنچ کر بس سے اتر گیا ۔چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے نوش کی اور بوسہ گلہ کے بارے میں دو ایک آدمیوں سے معلومات حاصل کیں۔ اب شام کے چار بج چکے تھے آگے اکیلے جانا ممکن نہ تھا ۔چنانچہ منگ بجری کا نالہ عبور کرکے اس پار ایک ہوٹل پر رات کو قیام کیا یعنی ساری رات جاگ کر کاٹی کہ چارپائی...
صورت گر کچھ کتابوں کے/کہانی کار: علی اکبر ناطق

صورت گر کچھ کتابوں کے/کہانی کار: علی اکبر ناطق

تصویر کہانی
علی اکبر ناطق یہ منیزہ نقوی ہیں ، امریکہ میں ہوتی ہیں ،کبھی کبھی پاکستان آتی ہیں ۔ کراچی میں ایک کتاب گھر تھا ۔ نام اُس کا پائنیر بک ہاوس تھا ، یہ سو سال پرانا تھا ۔ مگر تباہ ہو چکا تھا ، کوئی یہاں سے کتاب نہیں خریدتا تھا ۔ کتاب گھر کا مالک مکمل طور پر بیزار ہو چکا تھا ، وہ اُسے بیچنے کے لیے تیار تھا اور کتابوں کو خدا حافظ کہنے والا تھا ۔ دوکان تین منزلہ تھی ۔ اور ایسی نایاب جگہ پر اورنایاب طرز میں تعمیر ہوئی تھی کہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ ۔ مگر وہاں گاہکوں کی نایابی کے باعث دکان کچرے کباڑ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔ ایسے میں کسی نے ڈان میں اُس کے متعلق ایک آرٹیکل لکھا کہ سو سال پرانی دکان بند ہونے جا رہی ہے ۔ وہ آرٹیکل امریکہ میں بیٹھی منیزہ نقوی نے پڑھا ، منیزہ امریکہ سے کراچی پہنچی ، دکان کی حالت دیکھی اور بے چین ہو گئی ۔ دکاندار نہایت مایوسی اور نامرادی کی حالت میں تنہا بیٹھا دل سے گریہ ک...
توناتو راجا،  کہانی کار: شفق عثمان

توناتو راجا،  کہانی کار: شفق عثمان

تصویر کہانی
کہانی کار: شفق عثمانیہ کسی راجا کا نام نہیں بلکہ ایک جگہ ہے۔جسے جادوئی شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں آج بھی لوگ پتھر کے دور کی طرح رہتے ہیں۔ جہالت کا دور دورہ ہے۔یہ انڈونیشیا میں ایک جگہ ہے۔یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی خوبصورتی اور یہاں مناۓ جانے والے رسم و رواج پوری دنیا سی الگ ہیں۔اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لوگ مردہ کو درختوں میں قبر بنا کر دفناتے ہیںیہ لوگ تمام مردہ کو زندہ ہی مانتے ہیں۔یہاں کے لوگ جنازہ کی تقریب  ہر تین سال بعد مناتے ہیں۔مردہ لوگوں کو قبروں سے نکال کر انکو نئے لباس پہناتے ہیں اور یہ لوگ ویڈیو کال پر اپنے رشتہ داروں سے بات بھی کرواتے ہیں۔جب کوئی مر جاتا ہے تو یہ لوگ دکھ کا اظہار نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ انکو مردہ ہی نہیں مانتے۔اگر کوئی بیرون ملک سے جنازہ پر نہ آ سکے تو اگلی جنازہ تقریب پر مردہ سے مل سکتا ہے۔ اکثر لوگ مردے کو دفناتے نہیں ہیں بلکہ گھر می...
فرق تحریر : عنیزہ عزیر

فرق تحریر : عنیزہ عزیر

تصویر کہانی
تحریر  و تصویر : عنیزہ عزیر یہ دیوار، جس نے نہ جانے کتنی کہانیاں سنی، کتنی خوشیوں بھرے لمحات دیکھے اور نہ جانے کتنی دکھ بھری داستانیں اپنے اندر سموئیں۔ سرد بارش میں تیز ہواؤں کے تھپیڑے، سلگتی گرمی میں کَڑی دھوپ اور زمانے کی تمام سختیاں خود پر جھیلتی، دوسروں کے لئے سائبان بنی یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔زمانے کے بہت سے راز سموۓ اس دیوار کو میں روز تکتی ہوں تو یہ سوچتی ہوں کہ اس میں اور ہم عورتوں میں کتنی مماثلت ہے۔ بالکل اسی دیوار کی مانند ایک عورت بھی زندگی کے بہت سے راز اپنے اندر سموۓ رکھتی ہے۔ دھوپ ہو یا چھاؤں اپنے فرائض پورے کرتے کرتے اپنی عمر بسر کر دیتی ہے۔زمانے کی سختیاں جھیلتی عورت کبھی اپنے لبوں سے کچھ نہیں بولتی اور پھر جس طرح یہ دیواریں، جب زمانے کے تغیرات کی تاب لاتے لاتے اندر سے کمزور پڑ جاتی ہیں اور کسی دن اچانک سے ڈھے جاتی ہیں۔ اسی طرح، عورت بھی دن رات سب کچھ اپنی ذات پ...

آؤ انسانیت کو زندہ کریں/ گُلِ زار

تصویر کہانی
گُلِ زارـــ ڈی آئی خاناس پیاری دنیا کو طاقت کا “فاتحانہ تفاخر” تباہ کر رہا ہے جو اندھا ،گونگا اور بہرا ہے،نہ وہ مدمقابل کے خدوخال کو دیکھتا ہے ،نہ اس سے ہم کلام ہوتا ہے اور نہ اس کی دلیل سنتا ہے،بس چنگھاڑتا ہوا تصوراتی فتح کے جھنڈے لہراتا ہوا اپنے حریف پہ جھپٹ پڑتا ہے۔ عدم توازن کے باوجود اپنے سے کمزور ، پسماندہ قوم پہ حملہ آور ہونے پہ زرا برابر بھی شرمندہ نہیں ہوتا ہے۔کوئی ہے جو طاقت کی آزمائی کے جنون کو روکے؟انسانیت کش ہتھیار بناتے والے، ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کے ضائِع کرتے ہیں۔خدا فراموش لوگ ،دنیا کو بدامنی کی دلدل میں دھنسائے جارہے ہیں۔ کلسٹر میزائل ، فاسفورس بموں ڈرونز کی زد میں ہیرے تحلیل ہو رہے اور نومولود پھولوں کو اجتماعی قبریں میں دفنائے جا رہا ہے۔نجانے کہاں چلی گئی انسانوں کی انسانیت؟انسان تو اشرف المخلوقات ہے وہ دوسروں کے درد کو بھی بالکل ویسا ہی محسوس کرتا ج...
آئینہ تمثیل ، میرے راہرو میرے رہبر/ ارشد ابرارارش

آئینہ تمثیل ، میرے راہرو میرے رہبر/ ارشد ابرارارش

تصویر کہانی
یہ نیچے تصویر میں حقہ پیتے ہوۓ شخص میرے ابو ہیں ۔عہدِ شباب میں میرے والد اپنی مقامی سراٸیکی زبان میں شاعری لکھا کرتے تھےان کی شاعری کا محور و مرکز گل و بلبل کے قصے یا محبوب کی زلفِ گرہ گیر نہیں بلکہ وہ وسیب کی محرومیوں اور علاقاٸی زر پرستوں کے استحصالی رویہ جات پر چوٹ کیا کرتے ۔وہ آج ایک معروف نام ہوتے اگر یہ سفر جاری رہتا تو ۔لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ ایک دن ابو نے اپنا لکھا ہوا تمام کلام اٹھایا اور اسے آگ میں جھونک کر ہاتھ سیکنے بیٹھ  گئے ۔بطور باپ وہ میرے لیے ایک ایسے انسان ہیں جن کی تقلید کی جا سکتی ہے ۔ ہم سب بھاٸیوں نے باری باری انہیں بہت دفعہ تھکایا ہر دفعہ ابو نے ہماری ہر کج روی اور ڈگمگاہٹ کے باوجود سینے سے لگایا ۔گاوں میں اپنی عقل و دانش کے سبب مشہور ہوۓ اور لوگوں کے تنازعات ، صلح ناموں اور زمینی جھگڑوں کے فیصلوں میں انہیں بطور ثالث یا مُنصف مقرر کیا جاتا ہے ۔کثیر الاولاد ہیں اس ...
بےحس معاشرہ /حمیراعلیم

بےحس معاشرہ /حمیراعلیم

تصویر کہانی
حمیراعلیمیہ تصویر صرف پاکستان کے ایک شہر کی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ جمہوری ملک میں بھی ایسے لوگ جا بجا نظر آتے ہیں۔جو نشے میں دھت اپنے آپ سے بے گانہ کسی اور ہی دنیا کے باسی ہیں۔اسے معاشرتی بے حسی کہیے، حکومتی نا اہلی یا ان نشئیوں کی بدقسمتی لیکن یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا رخ ہے جس سے ہم نظریں چرا کر گزر جاتے ہیں۔  حالانکہ یہ سب بھی کسی خاندان کے جگر گوشہ ہیں۔جن کی پیدائش پر ان کے والدین نے خوشی منائی ہو گی جن کے آرام و سکون اور اچھی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا آرام و سکون تج دیا ہو گا۔ اس سب کے دوران ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ کچھ خودغرض معاشرتی ناسوروں کی وجہ سے ان کا بچہ منشیات کی لت لگا بیٹھے گا اور کسی محکمے کے اعلی عہدے دار یا کامیاب بزنس مین کی بجائے اس نالے کے کنارے ہوش و حواس سے بے گانہ پڑا ہو گا۔     اولین ذمہ داری تو حکومت اور قانون نافذ ک...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact