Friday, April 19
Shadow

اردو

ضیعف الا عتقادی یا صحیح الاعتقادی/ حفصہ محمد فیصل

ضیعف الا عتقادی یا صحیح الاعتقادی/ حفصہ محمد فیصل

تصویر کہانی
حفصہ محمد فیصل بطور لکھاری راستوں میں اس طرح کی وال چوکنگ دیکھ کر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ بابے اور عامل وغیرہ کیسی پہنچی ہوئی چیز ہیں، ہم بھی جا کر اپنی قسمت ازمائی کر ہی لیں۔دیوار کوڑے کے ڈھیر کی ہو، کسی میدان کی  ہو یا کسی پارکنگ ایریا کی۔ ہر جگہ ہی ان کے کارناموں اور صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑھے بلکہ لکھے نظر آتے ہیں۔ ویسے اگر ہر تمنا  انہی سے پوری ہو سکتی ہے یعنی؛ محبوب قدموں میں بھی آسکتا ہے، روزی کا مسئلہ ہو یا بیوی بچوں کی پریشانی ہو ہر مسئلے کا حل بابا بنگالی اور عامل چوپالی سے ہی مل جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے، واقعی لوگ ان کے پاس جاتے ہیں؟ موبائل نمبر کے ساتھ رابطے کے سارے انتظامات بھی میسر ہوتے ہیں۔ ایسی ضعیف الاعتقادی والے لوگ پوری دنیا ہی میں پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے دیس کی تو بات ہی نرالی ہے۔ یہاں تو ویسے بھی گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ لوگ ایسی چیزوں کو بڑھاوا ...
“ان مکانوں میں عجیب لوگ رہا کرتے تھے”، تحریر : نادیہ انصاری  

“ان مکانوں میں عجیب لوگ رہا کرتے تھے”، تحریر : نادیہ انصاری  

تصویر کہانی
نادیہ انصاری ۔ کراچیآج برسوں بعد اُس علاقے سے گزر ہوا تو بےاختیار جی چاھا کہ اُس گلی میں قدم رکھا جائے جہاں بچپن بےفکری لیے گزرا۔ اُس گھر کے سامنے کچھ دیر کو ٹھہرا جائے کہ جس کے کھلے دروازے سے کبھی زندگی ٹپکا کرتی تھی ۔ وہ گھر کہ جس کی سیڑھیوں پر اچھل کود کرتے ، ٹرین بنائے کھانا کھاتے اور جس کے ٹیریس پر کھوکھو ، برف پانی کھیلتے بچپن نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ آج زمانے بعد اُس گھر کے سامنے کھڑے ہوئے بے اختیار جی چاہا کہ اُن گزرے لمحات کو ایک بار پھر سے جیا جائے ۔ جی چاہا کہ بچپن پھر سے لوٹ آئے ۔ نگاہوں میں وہ مناظر ، سماعت میں وہ شور آج بھی زندہ تھا ۔ دل یک دم بے اختیار ہوا ایک بار تو اندر داخل ہو کر دیکھوں لیموں کا درخت اب بھی پھل دیتا ہے ۔ پیپل کے درخت پر جھولا پڑا  ہے ۔ اُس گھر میں ایک عہد بستا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نا ہر منظر ایک سا نہیں رہتا ۔ وقت بدل جاتا ہے سو وہ گھر جو کبھی ...
تحریر:انگبین عُروج-کراچی

تحریر:انگبین عُروج-کراچی

تصویر کہانی
چندوں سے کئی مسجدیں تعمیر ہو گئیںبچہ مگر غریب کا فاقوں سے مر گیاخداداد کالونی کی تنگ و تاریک گلیاں،ساٹھ گز پر محیط مکانات ایک دوسرے سے یوں جُڑے کہ اُن پر غریبوں کی جھونپڑیوں کا گمان ہوتا،کچھ منہدم بوسیدہ عمارتیں بیرونی کِواڑوں سے بھی آذاد تھیں۔پھٹے،پرانے چیتھڑے نما کپڑے پردے کی صورت چوکھٹ پر ہوا کی تند و تیز موجوں سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی کھو چکے تھے۔اس بستی سے ایک گلی کے فاصلے پر چھوٹے مگر خوبصورت کوارٹر بنے ہوۓ تھے۔فجر کا وقت گزر چکا تھا،فلک پر بکھری سُرخی مائل سپیدی طلوعِ آفتاب کی نوید سنا رہی تھی۔بستی والوں کا دن چڑھ آیا تھا پر بنگلے والوں کی رات کچھ لمحے پیشتر ہی شروع ہوئی تھی۔دروازے پر زوروں کی دستک دی جا رہی تھی لیکن نرم بستروں میں محوِ خواب اُمراء کی نیند کے خُمار میں چَنداں خَلل پیدا نہ کر سکی تھی اور دھیمی ہوتے ہوتے معدوم ہو گئی۔سہ پہر کے وقت بارہ سالہ حمدان نے امّاں کو درو...
لاحاصل تمنا/ تحریر: مدیحہ نعیم

لاحاصل تمنا/ تحریر: مدیحہ نعیم

تصویر کہانی
مدیحہ نعیم میری شادی نہیں، جنازہ اُٹھایا جا رہا ہے اِک مُردے کو کسی اور سے بیاہا جا رہا ہے ڈال کر میرے گلے میں پھولوں کی مالا میری قبر پر شامیانہ سجایا جا رہا ہے خوشیاں تو رخصت ہوگئیں کب کی مجھ سے میں ہوں خوش نصیب یہ بتایا جا رہا ہے رُخ پہ ڈال کے میرےآنسوؤں کا گھونگھٹ میری ہی موت کو میرے سامنے لایا جا رہا ہے ہوں کسی کی بیٹی اور کسی کی ہوں بہن ماہی! بس اِسی بات کا آج صلہ پایا جا رہا ہے از قلم: ماہی                                                  زبردستی کی شادی  ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔جس سے زندہ اور صیحح سلا...
ہماری بقا خطرے میں ہے۔ فیچر نگار: ثمن ابرار

ہماری بقا خطرے میں ہے۔ فیچر نگار: ثمن ابرار

تصویر کہانی
فیچر نگار: ثمن ابرارفطرت اپنے اصلی رنگوں میں کس قدر حسین لگتی ہے۔  اور انسان کو تب بھرپور نوازتی ہے جب وہ اپنے اصلی رنگوں میں ہوتی ہے۔ مگر ہم انسان فطرت کا میکانزم سمجھنے سے صاف انکاری ہیں۔ اپنے معمولی فائدوں کے لیے صدیوں کا نقصان مول لیتے ہیں۔ جنگل کے جنگل کاٹ پھینکیں گے کہ ہمیں دھن کمانے کے لیے کاروبار کھڑا کرنا ہے، کل کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کہاں سے آئی گی یہ نہیں سوچتے۔ پانی لاپرواہی سے ضائع کریں گے یہ سوچے بغیر کہ پانی ہے تو زندگی ہے۔ سیاحتی مقامات پر سخت قوانین نہ ہوں تو آلودگی پھیلا کر غیر ذمہداری کا ثبوت دیں گے اور فطرت کے حسن کو برباد کر دیں گے۔ اپنا گھروں اور کارخانوں کا ضائع شدہ مواد بشمول پلاسٹک اشیا کے دریاؤں کی نذرکریں گے جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ آبی حیات کے لیے بھی جان لیوا خطرہ ہے۔غرض یہ کہ فطرت کا کوئی بھی پہلو انسان کی تباہ کُن سرگرمیوں سے محفوظ نہیں۔ اگر ہم اسی روش پ...
جوانی کی موت مصنفہ: رمزہ قیوم

جوانی کی موت مصنفہ: رمزہ قیوم

تصویر کہانی
مصنفہ: رمزہ قیوم حنا اپنے کام میں مصروف تھی کہ اچانک امی کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔ ہائے میرا بچہ ! حنا بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی " "امی جی کیا ہوا؟" حنا نے پوچھا ۔  "تمہارے بھائی اور بھابھی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہےامی نے یچکیاں لیتے ہوئے کہا۔ حنا تو جیسے منجمد سی ہوگئ؛ اور بھائ ،بھابجی کے ساتھ گزرے وقت میں ڈوب گئ۔سکینہ بیگم کے رونے کی آواز سے پورا محلہ اکھٹا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وقار صاحب نے حاجرہ اور علی کی موت کی خبر سنائی ؛ سکینہ بیگم تو سکتے میں چلی گئ۔ تدفین کی تیاری شروع ہوگئی ؛ بچے ماں باپ کی میت کو دیکھ کر روئے جارہے تھے ۔"دادی کیا اب ہم مما بابا سے کبھی نہیں مل سکے گے" امبر نے پوچھا۔ سکینہ بیگم بس روئے جارہی تھیں ؛"ہائے!یہ اولاد کا دکھ میرے نصیب میں کیوں تھا؛میں مر کیوں نہیں گئ"۔ حنا امی کو تسلی کیا دیتی ؛ وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ننھے بچے سہمے ہوئے تھے۔ ح...
قدر/ تحریر: عمارہ فہیم

قدر/ تحریر: عمارہ فہیم

تصویر کہانی
عمارہ فہیم "اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟ آج تو پینٹنگ بھی نہیں کر رہیں۔" منیبہ نے سدرہ کو اداس دیکھ کر سوال کیا ۔ "پوچھ تو ایسے رہی ہو جیسے جانتی نہیں ہو ۔" "ارے بھئی! کاٹ کھانے والی کیوں ہورہی ہو ؟ " " میری دوست کا کس نے مذاق اڑادیا اور کس نے دل دکھایا ہے ذرا بتاؤ ، ابھی ٹھیک کرتی ہوں ۔" "یار ! کیا بتاؤں ! اتنے پیسے لگا کر کورسز کیے ، اتنی محنت سے ہر کام کیا مگر کوئی پینٹنگ بھی سیل نہیں ہوئی سوائے چند ایک کے ، امی الگ غصہ کرتی رہتی ہیں ، ناراض ہوتی ہیں کہ پیسے برباد کرتی ہو ۔" اس بار سدرہ کے آنسو بند توڑ کر بالآخر باہر آ ہی گئے اور منیبہ نے اسے کچھ دیر رونے دیا تاکہ اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو ۔ "اور تو اور مجھے سب کہتے کہ اپنے کام کی اچھی اچھی ویڈیوز بناؤ اور اس میں خوبصورت گانے یا میوزک ایڈ کرو تو دیکھنا لوگ کیسے دیوانے ہوتے ہیں ، اب تم ہی بتاؤ میں یہ سب کیسے لگا ...

معذوری لیکن مجبوری نہیں

تصویر کہانی
تحریر عبدالحفیظ شاہد۔ واہ کینٹانسان ہمت اور حوصلے سے ہروہ کام ممکن بنا سکتا ہے، جس کوحاصل کرنے کی وہ ٹھان لے، چاہے وہ کتنا ہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو۔ زندگی کی مشکلات کا ان سے پوچھیں جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ انسان اپنے جسم کے اعضاء سے معذور نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہمت اور حوصلہ سے معذور ہوتا ہے.بابر بھائی  بچپن سے ہی معذوری کا شکار ہیں۔ ان کی راہ میں زندگی نے بہت سی مشکلات کھڑی کیں۔ لوگوں کا رویہ سب سے بڑا چیلنج تھا۔ بابر بھائی کو لوگوں نے طعنے بھی کسے۔ باتیں بھی سنائیں۔آگے بڑھنے سے روکنے کےلئے حوصلہ شکنی بھی کی لیکن انہوں نے اپنی انتھک محنت جاری رکھی ۔ہمارا تعلق ایسے معاشرے سے ہے جہاں ہم نے معذوروں کو الگ تھلگ کر دیا ہے۔ جو کہ بہت خطرناک بات ہے۔ معذور بھی معاشرے کے کارآمد شہری ہو سکتے ہیں اگر انہیں توجہ ، پیار اور حوصلہ افزائی ملے۔ اب  وہ اڑت...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact