Friday, April 19
Shadow

کہانی

بجوکا۔۔۔         اختر شہاب

بجوکا۔۔۔         اختر شہاب

کہانی
اختر شہاب کوّی:   تم کھیت میں کھڑےہوئے اس انسان کو دیکھ رہے ہو ۔  یہ پہلے یہاں نہیں تھا جب ہم رزق کی تلاش سے واپس آئے ہیں تو اسے میں نے کھڑا دیکھا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پھل کی تلاش میں اس درخت پہ چڑھ آئے اور ہمارے گھونسلے کو نقصان پہنچائےکوّا:    لگتا ہے تم میں بھی انسانوں جیسی خصوصیات آتی جا رہی ہیں اور تم وہمی ہوتی جا رہی ہو ۔بھلی مانس! یہ انسان نہیں بلکہ ‘بچوگا ’ ہے اور ہم جیسے پرندوں  کو فصل سے دور رکھنے کے لیے کھڑا کیا گیاہے ۔کوّی  :۔  تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ  انسان نہیں ‘بجوکا' ’ہے؟کو  ا : بھلی مانس! خود سوچو اگر یہ انسان ہوتا تو اس کے ہاتھ میں موبائل نہ ہوتا ...
رمضان حصول علم کا مہینہ/ تحریر/ ام محمد عبداللہ

رمضان حصول علم کا مہینہ/ تحریر/ ام محمد عبداللہ

کہانی
*ام محمد عبداللہ* تا حد نگاہ پھیلا ایک چٹیل میدان تھا۔ دریا، پہاڑ، کھائی، ٹیلے، سمندر، جنگل کچھ بھی نہ تھا۔ نہ کوئی نشیب نہ فراز۔ فقط ایک چٹیل میدان اور آگ اگلتا آسمان۔ کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ برہنہ بدن، حسرت و یاس لیے ایک ہجوم تھا جو چیخ رہا تھا چلا رہا تھا۔ تڑپ اور سسک رہا تھا لیکن آہ و فغاں سننے والا کوئی نہ تھا۔ اسی بھڑکتی آگ اور شعلوں کی حدت سے بے دم ہوتے وہ ہجوم کے بیچوں بیچ آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہی منظر بدل سا گیا تھا۔ یہ معصوم بھولے بھالے نوعمر بچے تھے۔ کستوری کی مہک ان کے چاراطراف بکھری ہوئی تھی۔ نور کے تاج تھے جو انہوں نے سروں پر پہن رکھے تھے۔ آج جب سب بےلباس تھے۔ان کا لباس اور آن بان دیدنی تھی ۔ اس کو پروردگار عالم نے چار بچوں کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اس کے گھر میں قرآن پاک الماری میں سجا تھا اور اس کے بچے موبائل پر گ...
جنگل میں چرچ کے معاملات / تحریر: امانت علی

جنگل میں چرچ کے معاملات / تحریر: امانت علی

کہانی
تحریر: امانت علیاس جنگل میں سانپوں کو چرچ کے معاملات بھی سنبھالنے تھے کیونکہ جنگل کے سارے جانور قدرت سے لگاؤ رکھتے تھے۔ جانوروں کو کہیں نا کہیں روحانی تسکین یا خالق سے لگاؤ ضروری تھا۔ یہ عمل جنگل کے لیے ضروری بھی تھا اور بہت اچھے اور مذھبی لگاو والے کیڑے بھی موجود تھے  کچھ کیڑے مکوڑے قدرت سے زیادہ لگاؤ رکھتے تھے اور کچھ کم۔ سارے کیڑے مکوڑے اتنےباعمل نہیں تھے لیکن بعض کیڑوں کی جذباتی لحاظ سے  ہاتھ بھر کی زبان تھی۔  ان کے لیے چرچ و مندر کے بنیادی معاملات مکھی چھوڑ کر ہاتھی نگلے کے مترادف تھے لیکن ہمہ وقت مٹھی میں ہوا بند کرنے کے در پر ہوتے تھے۔  جو اپنے آقاوں کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے تھے۔  عام کیڑے ان کیڑوں کا اپنے سے افضل سمجھتے اور ان کو چرچ کے معاملات سونپے ہوئے تھے اور کو ذرے کا آفتاب بنا رکھا تھا۔ اس طرح جنگل میں چرچ کا نظام بحال تھاوہ کیڑے جن کو زیادہ سہولیات میسر تھیں جیسا کہ کھ...
کیڑے مکوڑوں کے شوق/ تحریر: امانت علی

کیڑے مکوڑوں کے شوق/ تحریر: امانت علی

کہانی
تحریر: امانت علیایک بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ یہ کیڑے مکوڑے اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی اتنی اذیت ناک زندگی کیوں گزار رہے  تھے۔ان کیڑوں کو جنگل کے سرداروں اور ان کے آلہ کار جیسا کہ سانپوں، چوہوں، بچھوں اور چھپکلیوں نے ذات ،رنگ یا نسل کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے مختلف فرائض سونپ دیےتھے۔ جن فرائض کو یہ بڑی خوشی سے سرانجام دے رہے تھے حالانکہ کیڑے مکوڑوں اس جنگل میں اکثریت تھی۔ان کی چیدہ چیدہ درسگائیں بھی موجود تھیں جن سے یہ اپنی ضرورت کے حساب سے علم بھی حاصل کر رہے تھے۔  اصل معاملہ ان کی اکثریت اقلیت یا علم کی کمی کا نہیں تھا بلکہ  شعور کی کمی تھی۔ ایک اہم خاصیت کیڑے مکوڑوں کے شوق تھے۔ یہ کیڑے مکوڑے اپنی ذات برادری یا قوم سےبے وفا اور حقوق سے نابلدجبکہ نام نہاد  اونچی ذات کے دوسرے جانوروں کے زیادہ وفادار  اوراعلی  تھے۔ان میں  مختلف رنگ چیونٹیاں  جو در پردہ خوراک کے حصول کے لیے سانپوں، چوہوں ...
مدھو مکھی اور عام مکھی، کہانی کار: ڈبلیو اے نینا

مدھو مکھی اور عام مکھی، کہانی کار: ڈبلیو اے نینا

کہانی
ایک دفعہ ایک مدھو مکھی اڑتی ہوئی دفتر سے اچھے مزاج میں اپنے گھر کو جا رہی تھی کہ راستہ میں اسے بو آنے لگی۔ اب مدھو مکھی پریشان ہوگئی کہ ایسی بو آ کہاں سے رہی ہے؟ وہ خود بہت صاف ستھری رہتی تھی اور اپنے اردگرد کے ماحول کو جہاں تک ہو سکے صاف رکھنا پسند کرتی تھی۔ وہ راستے میں پڑا کوئی بھی کوڑا کرکٹ کوڑے دان میں ڈال دیتی تھی۔  تھوڑا اور آگے بڑھنے لگی تو اسے عام مکھی ملی۔ عام مکھی بہت گندی ہو رہی تھی۔ وہ لگھ بھگ بیس سال کی لگ رہی تھی۔ عام مکھی اپنے کوڑے دان گاؤں سے باغ گاؤں میں رہنے آتی ہے۔ وہ بہت پریشان ہوتی ہے اور دل ہی دل میں اپنے رب سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ "یا رب! میرا کیا ہوکا اب؟" مگر پھر وہ  باغ گاؤں کی دلکشی میں کھو جاتی ہے۔ باغ گاؤں بہت پیار، صاف ستھرا اور خوشگوار ہوتا ہے۔ جبکہ کوڑا دان گاؤں میں صرف کوڑا اور ہر جگہ کچرے کے ڈھیر ہوتے تھے۔ ماحول کافی غلاظت والا ہوتا تھا۔...
کہانی: سانسوں کا شکوہ مصنف: دانش تسلیم

کہانی: سانسوں کا شکوہ مصنف: دانش تسلیم

کہانی
مصنف: دانش تسلیمفاروق کے گھریلو حالات سازگار نہیں تھے۔ گھر کا بڑا بیٹا اور باپ کا بازو ہونے کی وجہ سے ذمہ داریوں کا بوجھ کم عمری میں ہی اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ جس کے گھر میں ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوں بھلا وہ سکون کی نیند کیسے سو سکتا ہے؟فاروق کے والد ایک نمک کی کان میں پتھر توڑتے تھے اور یہ جان لیوا کام وہ اس سے کروانا پسند نہیںں تھے۔ یہ کوئی کام دھندا بھی نہیں جانتا تھا۔ اس لئے مجبورا اسے اپنی سانسیں غباروں میں پرو کر فروخت کرنا پڑتی تھیں۔ رات گھر جاتے وقت جب یہ اپنی معمولی آمدنی دیکھتا تو پھولوں کی طرح کھل اٹھتا۔فاروق فٹ پاتھ پر بیٹھا غبارے پھلا رہا تھا۔ کئی غبارے اس کے پاس ہوا کے دوش میں لہرا رہے تھے۔ سڑک پر گاڑیوں اور انسانوں کی ریل پیل تھی۔ فاروق نے ایک آدمی کو اپنی جانب آتا دیکھ کر آواز لگائی اور وہ اسے 'شکریہ' کہہ کر چلا گیا۔ اتنے میں غبارہ واپس اپنی پہلی حالت م...

جنگل کی کہانی، تحریر: امانت علی

کہانی
تحریر: امانت علیایک دفعہ کا ذکر ہےکہ ایشیا ء میں ایک بہت وسیع اور خوبصورت جنگل تھا۔ سر سبز شاداب، ہر چیز کی ریل پیل، اجناس کی بہتات سکون اور امن۔اس جنگل میں سب جانورہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ جنگل کے مختلف حصے تھے تب سانپوں کو یہ سکون نہ بھایا اور انہیں افریقہ کے جنگلات سے معلومات ملیں کہ اگر وہ آہستہ آہستہ جنگل کے مختلف حصوں میں باری باری کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کو مسل دیں تو وہ سارے جنگل کے مالک بن سکتےہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ باقی جنگلات میں آرام سے قبضہ کرتے ہوئے گھوم پھر سکتے ہیں اور لطف اندوز ہو سکتے کیونکہ کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں آتے جاتے ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں یہ مخلوقات سانپوں کے مزاج کو برہم کرتے ہیں ۔ سانپوں نے اس مقصد کے لیے چوہوں سے رابطہ کیا۔ چوہے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان کو کوئی کام مل گیا وہ بھی سانپ جیسے آقاوٴں کا۔ اب اس جنگل میں کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں مسلسل مسلے جا رہی...
کہانی :  چور بھوت، تحریر : ساجدہ بتول

کہانی :  چور بھوت، تحریر : ساجدہ بتول

کہانی
تحریر : ساجدہ بتول*کھٹاک کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ زیرو کے بلب کی روشنی میں انہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ان کی ضروری کاغذات والی الماری کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا اور دوسرا خود بخود کھل رہا تھا ۔ ایک پٹ سے ماسٹر چابی لٹک رہی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی اور پھر ایک دم ان کے منہ سے چیخ نکلنے لگی جو انہوں نے بمشکل روکی ۔ کیونکہ دو چمکتی آنکھیں ان کو دیکھ رہی تھیں ۔ یعنی وہ صرف آنکھیں تھیں ۔ وہاں کوئی ذی روح نہیں تھا ۔ اس کے بعد کا منظر عجیب تر تھا ۔ الماری میں سے ایک فائل خود بخود نکلتی نظر آئی تھی اور پھر وہ باہر نکل کر ہوا میں معلق ہو  گئی  ۔ ان کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی ۔ ”بھبھ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھوت “اگلا منظر انتہائی حیرت انگیز تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اس بات کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔ “ انہوں نے کہا”مگر مجھے تو آپ بتا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact