ثاقب علی حیدری

آزادکشمیر میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری ایک  نیا کاروبار بنتا جارہا ہے، اسی بنا پر حکومت اور نجی ادارے بے روزگار نوجوانوں سے سالانہ کروڑوں روپے کماتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر میں شرح خواندگی پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ (75 فیصد) ہے اور جہاں ایک جانب آبادی کے تناسب سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وہیں دوسری جانب ریاست میں بے روزگاری بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت آزادکشمیر میں بے روزگاری کی شرح 19 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور متنازعہ علاقہ ہونے اور بیرونی سرمایہ کاری سمیت پرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث روزگار کے لیے نوجوانوں کا زیادہ تر انحصار سرکاری ملازمتوں کے حصول پر ہی ہوتا ہے۔  آزادکشمیر کی چالیس لاکھ کی آبادی میں اس وقت ایک لاکھ کے قریب سرکاری ملازمین ہیں۔

سرکاری ملازمتوں کا حصول اب نوجوانوں کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے اور اس مقصد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سمیت ٹیسٹ اور انٹرویو لینے والے اداروں نے اسے ایک بڑا کمائی کاذریعہ بنا لیاہے۔

ریونیو جمع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ کنزیومر پاور ہوتی ہے اور اس کا صحیح فائدہ اس وقت سرکاری ملازمتوں کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو لینے والے سرکاری اور پرائیویٹ ادارے اٹھا رہے ہیں۔

آزادکشمیر میں سرکاری آسامیوں میں بھرتیوں کے لیے وفاقی پبلک سروس کمیشن کی طرز پر آزادجموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کا ادارہ موجود ہے، جسے رولز آف بزنس کے تحت تقریباً تمام محکمہ جات کو خالی ہونے والی جریدہ آسامیوں کو پبلک سروس کمیشن کو بھیجنا ہوتا ہے ۔

آسامی کی نوعیت کے مطابق یہ ادارہ ٹیسٹ لیتا ہے جس میں 45 فیصد ٹیسٹ میں حاصل کیے گئے نمبرز کو شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح 25 فیصد تعلیمی قابلیت جانچنے کے لیے رکھا جاتا ہے جبکہ شارٹ لسٹ ہونے والے امیدواروں کو بقیہ 30 فیصد نمبر انٹرویو میں دیے جاتے ہیں اور یوں ایک جریدہ سرکاری آسامی پر موزوں امیدوار کو منتخب کیا جاتا ہے۔

گو کہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس ادارے پر جانبداری اور سیاسی وابستگیوں کے الزامات لگتے رہے اور کچھ مواقعوں پر تو عدالت سے رجوع کرنے کے بعد امتحانات بھی دوبارہ لیے جاتے رہے۔

مگر اب جبکہ بے روزگاری کی شرح مزید بڑھ گئی ہے اور ہر سال آزادکشمیر کی صرف ایک جامعہ سے کم و بیش 3 ہزار سے زائد طلبہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اور حکومتی سطح پر مجموعی طور پر 300 آسامیاں بھی تخلیق نہیں کی جاتیں، ایسے میں یہ شرح ہرآنے والے سال میں مزید بڑھتی جارہی ہے۔

آزادکشمیر میں گزشتہ حکومت کی جانب سے تعلیمی پیکج کا اجراء کیا گیا جسے موجودہ حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی مگر عدالتی احکامات پر یہ تعلیمی پیکج چل پڑا اور 2018 اور 2019 میں اس کے مدنظر بہت سی آسامیاں تشہیر کی گئیں۔

رواں سال پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ صرف دو اشتہارات میں اب تک کل 728 آسامیاں تشہیر کی گئی ہیں جن کے لیے آزادجموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کو دو لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔

مشتہر کی گئی آسامیوں  میں سے 148 ایسی آسامیاں تھیں جن کے ٹیسٹ کی  فیس 1005 روپے تھی اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہر درخواست کے ساتھ 10 روپے کشمیر لبریشن سیل کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں۔

یعنی نوکری کی تلاش میں  بے روزگار شہریوں سے 20 لاکھ روپے صرف کشمیر لبریشن سیل کے نام پر ہتھیا لیے گئے اور یہ وہ رقم ہے جو صدر و وزیراعظم آزادکشمیر سمیت مختلف سیاسی رہنماوں کے تحریک آزادی کشمیر کے نام پر بیرون ملک دوروں پر خرچ کی جاتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف رواں سال محکمہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے حکومت آزاد کشمیر کو دس کروڑ سے زائد رقم درخواستوں کی فیس  کی مد جمع ہوئی ہے اور یہ تمام رقم ان بے روزگار نوجوانوں سے لی گئی جو اپنےوالدین یا کسی سے ادھار مانگ کر سرکاری ملازمت کے حصول کی جستجو میں ہیں۔

اسی طرح محکمہ تعلیم میں غیر جریدہ آسامیوں کی بھرتی کے لیے بھی این ٹی ایس کی خدمات حاصل کی گئی جس میں مجموعی طور پر 54500 درخواستوں سے 450 روپے فی کس کے حساب سے اڑھائی کروڑ روپے وصول کیے گئے جبکہ ان میں سے پاس ہونے والوں کی شرح صرف 4 سے پانچ فیصد رہی۔

اس کے علاوہ این ٹی ایس کی ذریعے پُر کی جانے والی کئی آسامیاں اب بھی خالی ہیں جبکہ این ٹی ایس کا ٹیسٹ صرف 6 ماہ تک کار آمد رہتا ہے۔

آزادکشمیر کی میں سب سے زیادہ تنخواہیں دینے والے ادارے عدلیہ میں ہر قسم کی آسامیوں کی بھرتیاں پبلک سروس کمیشن یا کسی اور ادارے کو نہیں بھیجی جاتیں بلکہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے سلیکشن بورڈز ہی ان اداروں میں خالی ہونے والی آسامیوں کاٹیسٹ اور انٹرویو لے کر انہیں پُر کردیتے ہیں۔

حال ہی میں محکمہ لوکل گورنمنٹ نے بھی خالی جریدہ آسامیاں پبلک سروس کمیشن کو نہ بھیجیں اور براہ راست صرف انٹرویو لے کر امیدواران بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف 7 جریدہ آسامیوں کے لیے 700 سے زائد درخواستیں وصول ہوئیں  جن کے ساتھ 500 روپے کے بینک ڈرافٹس بھی لگائے گئے اور ان بینک ڈرافٹس کو بنوانے میں نجی بینکوں نے بھی 550 روپے فی ڈرافٹ الگ سے وصول کیے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ انٹرویوز صرف زبانی (واک اِن انٹرویوز ) ہیں یعنی ایک دن کچھ سرکاری افسران نے انٹرویو لینے کے عوض امیدواروں سے ساڑھے تین لاکھ جبکہ تقریباً چار لاکھ روپے مختلف بینکوں میں جمع کرائے گئے۔

اگر حکومت صرف ان امیدواروں سے فیس کی مد میں جمع ہونے والے پیسوں سے ان نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کرے تو اس سے بےروزگاری کی شرح کچھ حد تک کم ضرور ہوسکتی ہے۔

نوجوانوں کو بلا سود قرضےفراہم کرنے اور نجی کاروبار کے فروغ کے لیے رقوم خرچ ہوں تو عوام کی جانب سے جمع کرائے گئے ان پیسوں سے اُن کی فلاح و بہبود  ہوسکتی ہے۔

 

بشکریہ  ہم نیوز

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact