عندلیب سے منظوم ترجمہ : ظہور منہاس // آواز و پیشکس : ظہیر احمد مغل اداس ہوں میںاور اس اداسی میں میرے اعصاب شل ہوئے ہیںسو لگ رہا ہے کہ زہر کے گھونٹ پی چکا ہوںوہ کیفیت ہے کہ جیسے افیون کا نشہ ہےابھی ہی کچھ دیر پہلے جیسے میں لیتھ دریا کے ایسے پانی کو چکھ چکا ہوں جو پینے والے کی ساری یادوں کو چھینتا ہےسنو اے بلبل ! یہ مجھ پہ طاری جو کیفیت ہےیہ تجھ سے ہرگز حسد نہیں ہےمجھے تو اپنی خوشی کی جھلکی تمہاری خوشیوںمیں دکھ رہی ہےسنو! اے ہلکے پروں کی مالک (شجر کی دیوی)بڑے تحمل سے اپنے جوبن پہ گا رہی ہوتو یہ علاقہ سروں سے پر ہےیہ ساحلوں کے ہرے درختوں بہت سے عکسی مناظروں کی طرح ہوا ہے سو لگ رہا ہے یہ فصل گل ہےکہ مے کی خواہش ہےایسی مے ہو جو ایک مدت سے ٹھنڈے گہرے گھڑے کے اندر رکھی ہوئی ہوکہ جس میں پھولوں کا اور پودوں کا ذائقہ ہونشاط_رقص و سرود رکھا ہوا ہو جس میںجنوب پیرس کی گرمیوں سے بھری صراحیجو ارغوانی(وہ ایسا جھرنا جو اک محرک ہے شاعری کا)جو ارغوانی ہو اور سچ سے بھری ہوئی ہوگلاس کی اوپری سطح بلبلوں سے پر ہوجو میرے ہونٹوں کو ارغوانی سے ہونٹ کر دےشراب پی لوں تو اپنی دنیا کو چھوڑ دوں میںشراب پی کر میں تیرے ہمراہ تیرے جنگل کی وسعتوں میں اڑان بھر لوںتمہارا جنگل جو پرسکوں ہےاداسیوں کا نشاں نہیں ہےیہ میری دنیا دکھوں سے پر ہےیہاں پہ کوئی بھی خوش نہیں ہےبڑوں کو حتی جوان لوگوں کو ضعف و اندوہ نے آلیا ہےیہاں پہ الہڑ کی تابناکی بھی چند برسوں کی مہرباں ہےچمک جو آنکھوں میں دکھ رہی ہے یہ مختصر ہےنئے دیوانے جو اپنے محبوب سے ملے ہیںیہ پھول کتنے قلیل عرصے لیے کھلے ہیںتمہارے ہمراہ گہرے جنگل میں میں اڑوں گابہت ہی آگے بہت ہی دوری پہ میں اڑوں گاشراب کے دیوتا کی بگھی مرے لیے ہے ؟نہیں ہے ہرگزسو میں کویتا کے غیر مرئی پروں کے دم پرتمہارے ہمراہ اڑ رہا ہوںمرا خرد مجھ کو روکتا ہے اندھیری شب کا عجب سماں ہےکہ چاند دیوی تمام تارے لیے ہوئے اپنی سلطنت پر براجماں ہےپہ روشنی کا نشاں نہیں ہےسوائے ہلکی سی روشنی جو گھنے درختوں کے سبز پتوں سے چھن کے دھرتی پہ آرہی ہےخبر نہیں ہے یہ میرے رستے میں کون سے گل اگے ہوئے ہیںیہ کیسی خوشبو ہےکیسے پھولوں سے آرہی ہےمگر میں خوشبو سے پر اندھیرے میں سوچ سکتا ہوں خوشبووں کوکہ فصل گل نے یہ شرف بخشا ہوا ہے مجھ کویہ بوٹیاں ہیں یہ جنگلی پھل ہیں بچھی ہوئی ہے زمیں کے سینے پہ گھاس سرسبزسفید کانٹے،گل بنفشہ یہ پھول نسریںیہ شوخ گل ہیں جو اپنے پتوں سے ڈھک گئے ہیںیہ فصل گل کے تمام گل ہیں جو اس کے بچوں سے لگ رہے ہیںشفاف شبنم جو گل کے پتوں پہ پڑ رہی ہے تو سرخ مے کا شبہ ہوا ہےبہار موسم کی دھندلی شاموں میں مدھو مکھیوں کی بھنبھنائٹ سی سن رہا ہوںمیں اس اندھیرے میں تیرے گیتوں کو سن رہا ہوںعجیب سی اک کشش ہوئی ہے اجل سے مجھ کوپہ میں نے پہلے بھی موت نظموں میں یاد کی ہےکہ موت آئے تو میری سانسوں کو شانت کر دےاور اب اندھیرے میں پرسکونی میں موت اچھی سی لگ رہی ہےتمہاری آواز اس کو آسان کر رہی ہےتمہاری آواز میرے مرنے کے بعد بھی تو یونہی رہے گیمری سماعت سے دور ہوگیسو ایک ماتم کا گیت بن کر بری لگے گیپہ تم اجل کے لیے نہیں ہو،امر پرندے!جدید نسلیں بھی تجھ پہ غالب نہ آسکیں گی جو تیرے نغمے میں سن رہا ہوں یہ پچھلے وقتوں میں کتنے راجوں نے اور وزیروں نے سن رکھے ہیںمجھے تو لگتا ہے تیرے نغموں نے رتھ کو رستہ دیا تھا شاید کہ جب غریب الوطن ہوئی تھیپرائے کھیتوں میں رو رہی تھیتمہارا نغمہ پرانے وقتوں مہیب قلعے کی کالی کھڑکی کے پاس سننے میں آیا ہوگاعجیب قلعہ جو اک بھیانک ندی کے ساحل پہ بدنمائی کی اک علامت بنا ہوا تھایہ ناامیدی کا واقعہ تھایہ ناامیدی کا لفظ بانگ_جرس ہے مجھ کومیں اس کو سن کر حقیقی دنیا میں آگیا ہوںتمہاری آواز مجھ کو دھوکا سا لگ رہی ہےوداع اے دھوکے کے باب میں شہرہ پانے والے عجب پرندے !وداع پرندے وداع پرندےتمہاری آواز قدرے مدہم سی ہو رہی ہےتمہاری آواز اب چراگاہ سے آرہی ہے پرے ندی کے قریب ،ہلکی سے آرہی ہےاور اب تو اس سے بھی دور گھاٹی سے آرہی ہےتمہاری آواز گھاٹیوں سے بھی کچھ پرے ہوتی جا رہی ہےاور اب تو آواز مک گئی ہےتو کیا یہ سپنا تھا یا حقیقتمیں جاگتا تھایا سو رہا تھا Ode to a Nightingale BY JOHN KEATS My heart aches, and a drowsy numbness pains My sense, as though of hemlock I had drunk,Or emptied some dull opiate to the drains One minute past, and Lethe-wards had sunk:‘Tis not through envy of thy happy lot, But being too happy in thine happiness,— That thou, light-winged Dryad of the trees In some melodious plot Of beechen green, and shadows numberless, Singest of summer in full-throated ease. O, for a draught of vintage! that hath been Cool’d a long age in the deep-delved earth,Tasting of Flora and the country green, Dance, and Provençal song, and sunburnt mirth!O for a beaker full of the warm South, Full of the true, the blushful Hippocrene, With beaded bubbles winking at the brim, And purple-stained mouth; That I might drink, and leave the world unseen, And with thee fade away into the forest dim: Fade far away, dissolve, and quite forget What thou among the leaves hast never known,The weariness, the fever, and the fret Here, where men sit and hear each other groan;Where palsy shakes a few, sad, last gray hairs, Where youth grows pale, and spectre-thin, and dies; Where but to think is to be full of sorrow And leaden-eyed despairs, Where Beauty cannot keep her lustrous eyes, Or new Love pine at them beyond to-morrow. Away! away! for I will fly to thee, Not charioted by Bacchus and his pards,But on the viewless wings of Poesy, Though the dull brain perplexes and retards:Already with thee! tender is the night, And haply the Queen-Moon is on her throne, Cluster’d around by all her starry Fays; But here there is no light, Save what from heaven is with the breezes blown Through verdurous glooms and winding mossy ways. I cannot see what flowers are at my feet, Nor what soft incense hangs upon the boughs,But, in embalmed darkness, guess each sweet Wherewith the seasonable month endowsThe grass, the thicket, and the fruit-tree wild; White hawthorn, and the pastoral eglantine; Fast fading violets cover’d up in leaves; And mid-May’s eldest child, The coming musk-rose, full of dewy wine, The murmurous haunt of flies on summer eves. Darkling I listen; and, for many a time I have been half in love with easeful Death,Call’d him soft names in many a mused rhyme, To take into the air my quiet breath; Now more than ever seems it rich to die, To cease upon the midnight with no pain, While thou art pouring forth thy soul abroad In such an ecstasy! Still wouldst thou sing, and I have ears in vain— To thy high requiem become a sod. Thou wast not born for death, immortal Bird! No hungry generations tread thee down;The voice I hear this passing night was heard In ancient days by emperor and clown:Perhaps the self-same song that found a path Through the sad heart of Ruth, when, sick for home, She stood in tears amid the alien corn; The same that oft-times hath Charm’d magic casements, opening on the foam Of perilous seas, in faery lands forlorn. Forlorn! the very word is like a bell To toll me back from thee to my sole self!Adieu! the fancy cannot cheat so well As she is fam’d to do, deceiving elf.Adieu! adieu! thy plaintive anthem fades Past the near meadows, over the still stream, Up the hill-side; and now ’tis buried deep In the next valley-glades: Was it a vision, or a waking dream? Fled is that music:—Do I wake or sleep? پیشکش: ظہیر احمد مغل Related Post navigation گوجری غزل – منیر احمد زاہد مسندِ پیارتک نہیں پہنچا ( غزل) ظہیر احمد مغل