Thursday, April 25
Shadow

Month: February 2021

ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ تحریر: اورنگزیب یوسف

ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ تحریر: اورنگزیب یوسف

آرٹیکل
اورنگزیب یوسف کی کتاب "جنت کی زندگی " ڈاؤن لوڈ کیجئےDownload جنت کی زندگی ، تصنیف اورنگزیب یوسف ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟سب تعریفیں اسی عظیم الشان ذات کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا اور اسے رنگ برنگي مخلوق سے سجایا۔ دن کی روشنی اور اس میں قسم قسم کی زندگي کی رعنائیاں، پھولوں کے رنگ و بناوٹ اور خوشبوئیں، سبزہ زار،باغات اور لہلہاتے کھیت، گیت گاتے پرندے، طرح طرح کےجانور،بل کھاتی ندیاں،آبشاریں اورجھرنوں بہتا پانی، مرغزار وں اور برف زاروں کے نظارے اور تتلیاں، ہواؤں کی گردش، گھٹائیں، گرجتےبادل ، کڑکتی بجلیاں، بارشیں، دریا ، سمندر، پہاڑ، درخت، رنگارنگ مخلوق اور نجانے کیا کچھ۔ رات کی تاریکی کا پردہ اور سکون ، قندیلوں کے مانندخوبصورت ٹمٹماتےستارے اور ان کی راہ دکھلاتی حسین روشنی اور دل میں طلاطم برپا کرتی ٹھنڈی مسحور کن چاندنی۔ یہ ساری چیزیں بامقصد ا...
کشمیر کی کہانی، تصنیف خواجہ عبدالصمد وانی

کشمیر کی کہانی، تصنیف خواجہ عبدالصمد وانی

تبصرے
 تبصرہ نگار:اطہر مسعود وانی کشمیر لبریشن سیل آزاد کشمیر حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی ممتاز و معروف شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی کی تحریر کتاب ”کشمیر کی کہانی” شائع کی ہے۔ 168 صفحات پر مشتمل کتاب کا انتساب ان کشمیری حریت پسندوں کے نام ہے جو اپنی عزت، حقوق اور آزادی کے لیے ظالم غاصب قوتوں کے خلاف بے مثال قربانیاں دیتے ہوئے نسل در نسل مصروف جدوجہد ہیں۔ پہلے باب ‘کشمیرکا تعارف’ میں کشمیر کی تین قومیں، آبادی، نام اور رقبہ، قدیم دور،ہندو دور، مسلم دورمغلیہ دور، افغانوں کا راج، سکھوں کی بالا دستی،سکھ راج کے خلاف سدھن بغاوت،ڈوگرہ راج کے عنوان شامل ہیں۔ باب دوم ‘کشمیر میں آزادی کی جدوجہد’ میں عہد نامہ امرتسر، ڈوگروں کا انگریز فوج کی مدد سے سرینگر پر قبضہ ،ڈوگرہ دور میںکشمیری عوام کی ابتر حالت،ڈوگرہ راج کے خلاف گلگت بلتستان اور وادی میں بغاوت،ڈوگرہ راج کی پہلی کونسل، کشمیریوں کی طرف سے برٹ...
لاٹھی ہاتھ کی، بھائی ساتھ کا – کہانی کار وقاص رشید

لاٹھی ہاتھ کی، بھائی ساتھ کا – کہانی کار وقاص رشید

تصویر کہانی
کہانی کار  اور تصاویر سردار وقاص رشید  آپ نے یہ محاورہ تو سُنا ہوگا۔ کہ لاٹھی ہاتھ کی، بھائی ساتھ کا۔ اس محاورے کا مطلب ہے کہ لاٹھی وہی جو ہاتھ میں ہو اور بھائی وہی جو ساتھ دے۔ آزادکشمیرکے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک درویش صفت انسان ایسا ہے جس نے اس محاورے پرپورا عمل کرکے خدمت خلق اور سماجی فلاحی کاموں کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ لاٹھی(سوٹی) یا چھڑی، اور عصا بنانے کے ماہر۔۔۔۔۔۔۔۔ہورنہ میرہ، کوٹیڑہ راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے محترم شفیق صاحب اپنے فن کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے وہ انتہائ مہارت اور نفاست سے بہت ہی خوبصورت اور مختلف ڈیزائن کی لاٹھیاں اور عصا وغیرہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے ہیں -میرا خیال ہے کہ د نیا کی کسی مارکیٹ میں کوئی مشین بھی اتنی خوبصورتی سے بل کھاتی اور مختلف ڈیزائن کی لاٹھیاں تیار نہیں کر سکتی۔ خوبصورت لاٹھیاں وہ مارکیٹ میں فروخت...
سوچ زار،ایک تاثر۔۔۔۔ مصنفہ، مریم مجید ڈار

سوچ زار،ایک تاثر۔۔۔۔ مصنفہ، مریم مجید ڈار

تبصرے
تبصرہ :اظہر مشتاق مریم مجید ڈار کی تخلیقات سے میرا پہلا تعارف سماجی  رابطے کی ویب سائٹ سے ہوا،  ان کا پہلا افسانہ جو میری نظر سے گزرا  وہ “ادھوری عورت کی کتھا ” تھا ۔ جس میں ایک عورت کی اپنے سوتے ہوئے شوہر سے وہ کلام تھا جسے وہ سن نہیں سکتا  تھا۔ اس پوری کہانی میں الفاظ کا چناؤ ، جملے کی بنت اور استعارے  ایسی مستعدی سے استعمال کئے گئے تھے کہ اگر اس افسانے کی  مصنّفہ    کا  نام کو کاٹ کر قراۃالعین حیدر، بانو قدسیہ، پریم چند ،کرشن چندریا سعادت حسن منٹو کا نام لکھ دیا جاتا تو  قاری بالکل اعتبار کر لیتا کہ یہ  تحریر اردو ادب کے انہی  کہنہ مشق ناموں میں سے کسی ایک کی ہے۔ “سوچ زار” مریم کے  ستائیس افسانوں پر مشتمل ان کی پہلی تصنیف ہے،  ان افسانوں کے ادبی محاسن پر تکنیکی  رائے ادب کا کوئی معتبر نام یا ناقد دے سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ  ناقد  نوآموز مصنفہ...
مادر علمی گورنمنٹ کالج میرپور آزادکشمیر کی ایک تاریخی تصویر

مادر علمی گورنمنٹ کالج میرپور آزادکشمیر کی ایک تاریخی تصویر

تصویر کہانی
کہانی کار : مشتاق اے بٹ  -فوٹو کریڈٹ : سروشین  یہ 1945 کی کالج کی بلڈنگ پرانے میرپور کے احاطہ کی تصویر ہے. جبکہ کالج کی ٹیم شملہ انڈیا میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلہ میں کچھ ٹرافیاں جیت کر لائی تھی - تصویر میں کالج کے پرنسپل سید مختار شاہ جن کا تعلق سری نگر کشمیر سے تھ، ا بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور انکے ساتھ کالج کے ڈی پی عبدالحمید بیٹھے ہوئے ہیں - تصویر میں کالج کے صرف تین مسلمان طلبا سید سلطان شاہ، محمد حسین رتیال اور چوھدری محمد رفیق ہیں جبکہ باقی سب طلبا میرپور کے مقامی ہندو تھے ۔ میرپور کالج 1944 میں ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے اکلوتے بیٹے  شری کرن سنگھ کے نام سے انٹرمیڈیٹ کی حثیت سے قائم کیا تھا۔ اور یہ سری نگر اور جموں کے کالجوں کے بعد ریاست بھر کا تیسرا کالج تھا ۔ 1947 کی تقسیم کشمیر کے بعد یہ آزادکشمیر کا واحد کالج تھا۔ اور اسے 1950 کے لگ بھگ ڈگری کا...
مظفرآباد تباہی کے دہانے پر۔ ابرار حیدر

مظفرآباد تباہی کے دہانے پر۔ ابرار حیدر

آرٹیکل
تصاویر:  اشفاق شاہ - سوشل میڈیا/ سید قاسم سیلانی عظیم ہمالیہ اور پیر پنجال کے دامن میں فطرت انسانی کی تسکین کا سامان لیے ایک اہم شہر واقع ہے۔ جو زمانہ قدیم سے حملہ آوروں، تجارتی قافلوں، مذہبی راہنماﺅں ریشی سنت ، سادھوؤں اور اولیاءاللہ کی گزرگاہ رہا ہے۔ اور جسے اولین تاریخ میں اڈا بانڈا لکھا گیا۔ اور اب مظفرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔وادی کشمیر میں کامبو جاس، بدھ ازم، شیو ازم، ہندو ازم اور دورِ اسلامی سمیت جتنے بھی ادوار گزرے، اس شہر پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل سٹی مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کی شائع کردہ کتاب The practice of Local Government Planning میں مظفرآباد کی جغرافیائی علاقائی وسعت اور اہمیت کے تناظر میں اسے گیٹ وے قرار دیا گیا۔مظفرآباد کوہالہ سے پنجاب، برارکوٹ سے خیبر پختونخواہ، چکوٹھی لائن آف کنٹرول سے سرینگر، اور سرینگر سے جموں امرتسر اور دلی کو ملانے کا ذریعہ ہے،...
گوجری غزل – منیر احمد زاہد

گوجری غزل – منیر احمد زاہد

شاعری, گوجری
شاعر ہے نہ ہی فلسفی نہ ہی بڑو منیربس قسمتاں گی کانگ ما کچو گھڑو منیرنہ چھاں نا پَھل،پٌھل نہ ہی فایدو ذریجیون گوبوٹوہوگیو کیوں ارکھڑو منیر؟تیرا سفر گی ساریں اوکھت دسیں لگیںہوٹھاں گی پیپڑیں تے منہ گو تڑو منیرتعویزچل نئیں سکتو ،چہامو نہ پھوک،پھاکٌٹٹ جائے گو ماندری گو آخر کڑو منیرنہ دل بڑو ،نہ صبر ،نہ اخلاص، نہ وفاکسرا تو اپنا آپ نا کہہ تھو بڑو منیرگھر پہیتو ہی جے رل جےچوراں گی جٌٹ نالتاں کم نئیں دیتو جندرو،روہڑو،اڑو منیرجنگ جیتنی ہوئے تاں جذباں گی لوڑ ویےہتھیار کم نئیں دیتو غدر ما چھڑو منیرجے چج نال جین گو لینو ہوئے سوادتاں دشمناں گی فوج گے وچ جا بڑو منیر ...
پروفیسرڈاکٹررفیق انجم ۔ شخصیت اور فن ۔ شاذیہ چودھری

پروفیسرڈاکٹررفیق انجم ۔ شخصیت اور فن ۔ شاذیہ چودھری

شخصیات
شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ کہ قوم اور معاشرہ ایک جسم کی طرح ہیں۔ اور شاعر اور ادیب اس قوم اور معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں۔ جسم کو اگر کوئی روگ لگ جائے ۔ تو آنسو درد بن کر آنکھوں سے ٹپکتے ہیں۔ یا ایسے بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہ آنکھوں سے ٹپکتے آنسؤوں کو دیکھ کر جسم کے روگ کا اندازہ لگ جاتا ہے اس لئے ہم کہہ سکتےہیں کہ ادیب اور شاعر قوم کی آنکھ ہیں۔ اور قوم کے درد کو اسکی آنکھیں ہی سمجھ سکتی ہیں۔ جس کو وہ حروف و الفاظ کے موتیوں میں پرو کر قوم کی تاریخ کا نام دیتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے تشخص کے بارے میں اگر جاننا ہوتو اس قوم کی ادبی حیثیت کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ قوم کے شعور اور غرور کو جاننے کے لئے اس قوم کی ثقافت کی پہچان پہلی شرط ہوتی ہے۔ گجر قوم کی پہچان بھی اس قوم کا ادب ہے۔ اور ادب کو سامنے لانے والا ادیب ہے جو قوم کی ثقافت کو ادب گے ذریعے سامنے لاتا ہ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact