/شاعر: صفیؔ ربانی آج تک ہم نے دیکھی نہیں وہ سحرجس سحر کے لیے کٹ گئے گھر کے گھررہنما لوٹ کر لے گئے قافلےاہلِ دانش کھڑے دیکھتے رہ گئےظلم حاکم کے ہم پہ روا آج بھیہم وطن کے لئے ہر ستم سہ گئےکرگسوں کی چمن پر حکومت رہیہر گلی ہر نگر میں رعونت رہیفاختہ کا نشیمن جلایا گیاقمریوں کے لیے بھی قیامت رہیدور بدلے کئی پر نہ بدلے ستماپنی قسمت رہے گولیاں اور بمکس سے مانگیں بھلا خوں بہا دوستو؟قتل بھی ہم ہوئے اور قاتل بھی ہماہلِ دربار جتنے ہوئے سرخروظلم اتنے غریبوں پہ ڈھائے گئےکتنے معصوم کاندھوں سے اکثر یہاںمامتاؤں کے لاشے اٹھائے گئےقتل گاہیں شب و روز سجتی رہیںخونِ ناحق کے دریا بھی بہتے رہےکتنے اہلِ جنوں ملک کے پیار میںطنز و دشنام کے تیر سہتے رہےجب کبھی آگ بھڑکی کسی شہر میںاس کی زد میں تو مفلس کی کُٹیا رہیجیسے برطانوی راج میں ظلم تھاآج بھی ہے وہی ، آج بھی ہے وہیجس نے ظالم کو ٹوکا وہ باغی ہواجس نے کچھ نہ کہا شاد وہ بھی نہیںنسل در نسل کی ہے غلامی یہاںاپنے لوگوں پہ ہی تنگ اپنی زمیںخون ہے ہر طرف، ہر طرف راکھ ہےکون ہے جو رعونت پہ معمور ہےکون پکڑے اُسے قتل جس نے کیےایسا قاتل جو ایواں میں مشہور ہےآج بھی ڈر کے سائے میں چاروں طرفآج بھی ہیں مرے لوگ سہمے ہوئےآج بھی ہے وہی قیصریت یہاںفرق اتنا ہے ، انداز بدلے ہوئےمیرے پیارو مرے غم گسارو کہو!خود کو آزاد اب میں کہوں کس طرحتاک میں میرے اپنے ہیں بیٹھے ہوئےایسے عالم میں زندہ رہوں کس طرح Related Post navigation سوچ میں ڈوبے نین تمہارے غزل