Press for Peace
تد وین : ڈ ا کٹر نگہت یونس ، تحریر: راجہ وسیم، فرید الہادم ، تصاویر: امیر الدین مغل۔

آٹھ ا کتوبرکا زلزلہ اور پریس فار پیس کی امدادی سرگرمیاں۔

آٹھ اکتوبر2005ء کوصبح 8:52منٹ پر آزاد کشمیر کے بیشتر حصے اور صوبہ سرحد کے کچھ علاقے میں آنے والے قیامت خیز زلزلے نے ان علاقوں میں موجود ہر جان دار بے جان چیز کو بے پناہ نقصان پہنچایا،جن لوگوں نے متاثرین کی امداد کی پوری قوم ان کی تہہ دل سے شکر گزار ہے ان لوگوں کا احسان زندگی بھر نہیں بھلایاجاسکتا جنھوں نے اس کڑے وقت متاثرین کی دل کھول کر مدد کی اس مشکل گھڑی میں مقامی این جی اوز اور لوگوں نے بھی شاندار خدمات سرانجام دیں ایک ایسے وقت میں جب مواصلات کے تمام رابطے ختم ہو چکے تھے اور متاثرہ علاقوں میں دور دور تک زندگی کے آثارنہیں نظر آتے تھے۔

کچھ لوگ ایسے تھے جو دیوانہ وار امدادی کاموں میں لگے ہوئے تھے ان کو اپنی اور اپنے خاندان والوں کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ایک ایسے وقت میں جن مقامی لوگوں نے امدادی کام کیا ان کے پاس کوئی اسٹرکچر باقی نہیں بچا تھا ۔۔

پریس فار پیس کے کارکنوں نے زلزلہ کے فوراً بعد اپنا کام شروع کیا اس تنظیم کے پاس نہ تو بہت بڑے اثاثہ جات تھے اور نہ ہی بہت بڑا انتظامی سیٹ اپ ،مگر اس کے جفاکش کارکنوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں بے لوث کام کر کے یہ ثابت کر دیا کہ خدمت کے کام کے لیے بڑے وسائل کی نہیں بلکہ ایک درد مند دل کی اور خلوص نیت کی ضرورت ہوتی ہے جب نیت صاف ہو اور خدمت سے ہٹ کر کوئی دوسرا مقصد نہ ہو تو کام میں خوبخود آسانی پیدا ہوتی ہے ۔

پریس فار پیس کے رضاکار امیر الدین مغل اور ایوا ماریا مظفرآباد میں قائم میڈیا سینٹر میں رضاکارانہ سرگرمیوں میں مشغول ہیں

8اکتوبر کے زلزلے نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے 28ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر بے پناہ تباہی پھیلائی ۔اس زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی گنجان آباد علاقوں میں ہوئی جہاں اموات کی شرح اور املاک کے نقصان کا گراف بہت بلند تھا ۔سب سے زیادہ متاثر دارالحکومت مظفر آباد 8اکتوبر اور اس کے بعد کئی ہفتوں تک قیامت کا منظر پیش کرتا رہا ۔

اس مشکل وقت میں پریس فار پیس کے عہدے داران اور ممبران نے انفرادی طور پرجن مقامات پر وہ موجود تھے وہیں سے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔زخمیوں کی طبی امداد ،عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے ،ملبے تلے دبے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو نکالنے سمیت اسکولوں ،دفاتراور دکانوں میں پھنسے ہوئے بچوں بچیوں ،جوانوں ،بزرگوں اور خواتین کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کر دیا ۔

پریس فار پیس کے بانی ظفر اقبال مظفر آباد شہر کے سکولوں کے بچوں کی لاشیں کندھوں پر اٹھا اٹھا کر گھروں اور زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچاتے رہے ۔

اسی طرح پریس فار پیس میں شامل ہر رکن اور رضا کار جہاں تھا وہاں اس نے اپنی خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں ۔

ابتدائی ایک دو روز تک مقامی صحافتی برادری کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی بھول گئی تھیں ۔اس موقع پر پریس فار پیس نے یہ محسوس کیا کہ مصیبت ز دہ لوگوں کی سب سے بڑی مدد یہی ہوگی کہ اس قدرتی مصیبت سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ۔مظفر آباد میں حکومتی انفرا سٹرکچر کے ساتھ ساتھ مواصلاتی نظام بھی بری طرح تباہی سے دو چار ہوا جس کی وجہ سے پاکستان میں عوام اور حکومت دونوں مظفر آباد بلکہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد پر گزرنے والی قیامت سے لاعلم تھے اور میڈیا کا سارا زور اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی تباہی پرمرکوز تھا۔

دُکھ اور درد کی گھڑیوں میں پریس فار پیس کے ظفراقبال ایک متاثرہ خاندان کی دلجوئی کر رہے ہیں۔

اس وقت پریس فار پیس کے مرکزی عہدیداران جن میں ظفر اقبال ،طارق نقاش ،محمد فرید الھادم ،راجہ وسیم ،آصف رضا میر ،نجم الاسلام اثری ،نگزیب سیف اللہ،خواجہ اخلاق کاشر اور دیگر شامل ہیں اپنے کام کا آغاز کیا ۔اگرچہ مذکورہ عہدیداران میں سے اکثر کے گھر تباہ تھے عزیز و اقارب جاں بحق اور ان میں سے کئی ایک خود بھی زخمی تھے لیکن سب نے یکجا ہو کر اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کا پہلا قدم یہ قرار پایاکہ پاکستان کے بڑے شہروں اسلام آباد ،لاہور ،کراچی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو آزاد کشمیر میں زلزلے سے ہونے والی خوفناک تباہی سے آگاہ کیا جائے۔

اس موقع پر بھی مواصلاتی نظام کی تباہی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا رہا ۔شہر بھر میں صرف چند ایک لائنیں ہی منقطع ہونے سے بچی تھیں اور ان کے مالکان بھی تعاون پر آمادہ نہ تھے ۔اس موقع پر پریس فار پیس نے یہ محسوس کیا کہ اکثر ارکان کی صحافتی پیشہ ورانہ ضروریات کا سامان کیمرے،فون سیٹ گھروں اور دفتروں کے ملبوں میں دب گئیں یا امدادی سرگرمیوں کی بھاگ دوڑ میں ضائع ہو گئیں ،پہلے مرحلے میں ظفر اقبال نے ساتھی عہدیداران کو کیمرے اور   فلمیں فراہم کیں تاکہ وہ اپنا کام بطریق احسن انجام دے سکیں ۔

میڈیا کے محاذ پر 

پریس فار پیس کے کو آرڈینیٹر امیر الدین مغل جو کہ 8اکتوبر کو شدید زخمی ہو گئے تھے انٹر نیشنل نیوز ایجنسی ’’رائٹر‘‘کے ساتھ بطور جرنلسٹ منسلک تھے۔ مکمل طور پر ابھی صحت یاب  بھی نہیں ہوئے تھے اپنی صھت کی پراو کیے بغیر ہی چند روز میں اپنے کام میں دوبارہ سرگرم ہو گئے اور ان کے بنائے ہوئے متاثرہ علاقوں کے فوٹو بین الاقوامی میڈیا پر نمایاں انداز میں شائع ہوئے جن سے تمام دنیا متاثرین کے مسائل سے آگاہ ہوئی اور بین الاقوامی میڈیا نے متاثرہ علاقوں کا رخ کیا ۔

مزید برآں پریس فار پیس نے بین الاقوامی میڈیا کو اپنی پیشہ ورانہ سہولیات کے علاوہ ان کی رہائش اورطعام کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دور دراز مقامات تک ان کی رسائی و رہنمائی کے لیے بھی مناسب بندوبست کیا۔

پریس فار پیس کے کوآرڈینیٹر ظفر اقبال نے سافما (ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن )شرکت گا ہ لاہور،اثر ریسورس سینٹر URI،لاہور پریس کلب اور دیگر غیر سرکاری اداروں ،تنظیموں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں اورانھیں متاثرہ علاقوں کے مسائل سے آگاہ کیا ۔

حقیقی معنوں میں زلزلہ متاثرین کی مدد کرنے والی این جی اوز ،تنظیموں اوراداروں کومیڈیا ریلیف سینٹر کے ذریعے ذرائع ابلاغ میں خصوصی کوریج دی گئی۔پریس فار پیس کے ارکان تندہی سے متحرک رہے اور زلزلہ کی تباہ کاریوں کی تصاویر ،فلمیں بذریعہ ہیلی کاپٹر اسلام آباد اور لاہور بھجی گئیں۔بجلی اور فیکس کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی زلزلہ کی تباہ کاریوں ،ہلاکتوں کی تفصیلات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام بڑے مراکز کو براۂ راست فون پر فراہم کی گئیں جس کے نتیجے میں بیرون ملک اور پاکستان سے میڈیا کے نمائندوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا ۔

زلزلہ متاثرین کی بحالی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مقامی و عارلمی زرائع ابلاغ سے وابستہ صحافیوں کی معاونت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کے لیے پریس فار پیس کے ممبران نے کلیدی کردار اداکیا ۔

عالمی صحافتی اد ارے ’’انٹر نیوز‘‘نے جب آزادکشمیر اور صوبہ سرحد کے پریس کلبوں کی بحالی کے پروگرام کے تحت ان اداروں کو کمپیوٹرز اور دیگر سامان فراہم کیا تو انٹر نیوز نے پریس فار پیس کی خدمات کے اعتراف میں پریس کلب نہ ہونے کے باوجود پی ایف پی کو اپنے پیکج میں شامل کیا ۔

پریس فار پیس کے سربراہ ظفر اقبال نے امیرا لدین مغل اور راجہ وسیم انٹرنیوز کے نمائندے جناب مطیع اللہ کے ساتھ باہمی تعاون و اشتراک کے معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت انٹر نیوز کی طرف سے فراہم کردہ کمپیوٹر اور فیکس پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
پریس فار پیس کی انتظامیہ انٹر نیوز کے اس عطیے پر شکر گزار ہوئی ۔مظفر آباد میں بحالی و تعمیرِ نو کی کوریج کرنے والے کئی غیر ملکی اور ملکی صحافیوں نے پریس فار پیس کے دفتر میں موجود کمپیوٹر اور فیکس سے بھر پور استفادہ کیا۔

رضا کار فورس کا قیام 

:پریس فار پیس نے امدادی سرگرمیاں شروع کرنے اور ریلیف کے کاموں کے لیے آنے والے اداروں ،تنظیموں اور افراد کی رہنمائی کے لیے خصوصی یونٹ تشکیل دیا جسے پریس فار پیس رضا کار فورس کا نام دیا گیا اور اس کی سربراہی اور ذمہ داری معروف طالب علم رہنماء ذوالفقار بیگ کو سونپی گئی ۔

،ملک ذوالفقار ،دانیال شہاب ،وفاق انجم، فاضل مغل ،اعجاز کاظمی،زبیر الدین عارفی،سعید الرحٰمن سجاد ،تصدق شفیق،وقار ہاشمی ،نعیم قریشی ، سمیت اس فورس میں یونیورسٹی ،کالجوں اسکولوں کے طلبہ انجینئر ز اور معاشرے کے ہر طبقے کے افراد نے خود رضاکارانہ بنیاد پر شمولیت اختیار کی جنھیں حسب صلاحیت امور پر مامور کیا گیا ۔

غیر ملکی صحافیوں ،این جی اوز اور سروے ٹیموں کی رہنمائی کے لیے یونیورسٹی اور کالجز کے اچھی انگریزی استعداد رکھنے والے طلبہ کو بطور گائیڈ اور ترجمان کے ان کے ساتھ تعینات کیا گیا ۔

این جی اوز نے امدادی سامان کی دور دراز مقامات پر متاثرین تک پہنچانے میں جب دشواری محسوس کی تو پریس فار پیس کے ان رضاکاروں نے اپنی خدمات فراہم کیں ۔پریس فار پیس کے جذبہ خدمت سے متاثر ہو کر کچھ ہی دنوں میں شہر اور مضافات کے درجنوں کارکنوں جن میں نوجوان اور خواتین بھی شامل تھیں نے بھی اپنی رضا کارانہ اور بلا معاوضہ خدمات وقف کر دیں ۔

جلد ہی ان رضا کاروں کی تعداد 500تک جا پہنچی ۔پریس فار پیس رضاکار فورس نے اس بے سرو سامانی اور نفسا نفسی کے وقت میں ایسے خاندانوں کے لیے خدمات سر انجام دیں جن کو پاس امید کی کوئی اور کرن موجود نہیں تھی ۔رضا کاروں نے شہر کے مختلف مقامات پر فلاحی اور خیراتی اداروں کی طرف سے متاثرین کے لیے لگائے گئے لنگر وں سے کھانا اٹھایا اور اور بے سر و سامان اور بے یار و مدد گار خاندانوں میں صبح شام بلا ناغہ تقسیم کیا ۔

رضا کاروں نے مختلف صحافتی اداروں ،پریس کلبوں اور بیورو دفاتر میں دن رات پیشہ ورانہ فرائض میں مصروف صحافیوں کو اس وقت تک کھانا فراہم کیا جب تک زندگی کافی حد تک معمول پر نہیں آگئی۔رضاکاروں کی ترجیح میں یتیم بچے ،بیوگان اور بے یار و مدد گار خاندان سر فہرست تھے۔

میڈیا سٹی کا قیام 

:پریس فار پیس نے دارالحکومت مظفر آ باد کے انفرا اسٹرکچر کی تباہی کے بعد متاثرہ صحا فیوں ،غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چہلہ بانڈی کے مقام پر’’ میڈیا سٹی‘‘ قائم کیا،یہ میڈیا سٹی 7ماہ تک کام کرتا رہا اور زلزلے سے پیدا شدہ مسائل کوقومی اور بین الاقوامی محاذ پر اجاگر کرتارہا۔

تعلیم

:زلزلے نے یوں تو زندگی کے ہر شعبہ کو ہی تہس نہس کیا مگر سب سے زیادہ جو شعبہ زندگی زلزلہ سے متاثر ہو ا وہ تعلیم کا شعبہ تھا۔ سرکاری ٹھیکیداری میں بننے والی وہ تما م عمارتیں جن میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم تھے بری طرح تباہ ہوئیں جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ۔سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی سمیت متعدد سرکار ی اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ایک پوری نسل ختم ہوگئی ۔

جو طلباءزندہ بچ گئے تھے ان کی نفسیاتی کیفیت شدید متاثر ہوئی اور وہ ٹراما کے زیر اثر ایسے اداروں کا رخ کرنے سے گھبراتے تھے۔اس صورتحال کے پیشِ نظر پریس فار پیس نے ہنگامی بنیادوں پر خیمہ سکولوں کے قیام کا فیصلہ کیا تاکہ نو خیزذہنوں کی ذہنی کیفیت اور نفسیاتی خوف کو بتدریج دور کر کے انھیں دوبارہ تعلیم کیساتھ منسلک کیا جائے۔

سلسلہ تعلیم کی بحالی کی پہلی اینٹ

اس سلسلے کی پہلی اینٹ کے طور بے سر و سامانی کے عالم میں روزنامہ خبریں کی تباہ شدہ عمارت میں کے بچھے کھچے صحن میں پرائمری کلاسوں کا اجراء کیا گیا ۔ابتدائی دنوں میں پریس فار پیس کے ارکان نے خود بچوں کو سکول آنے پر آمادہ کیا اور تدریس کے فرائض بھی سنبھالے۔بعد ازاں پریس فار پیس کی رضا کار فورس کے اعلٰی تعلیم یافتہ مرد و خواتین کو اس کام کی انجام دہی پر مامور کیا گیا ۔سکول کی انچارج محترمہ زائدہ ظہیر جگوال کو بنایا گیا جن کی شبانہ روز کاوشوں اور انتھک محنت سے سکول میں بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلاگیا ۔

رضا کار فورس کے ارکان بالخصوص وسیم خان جدون،محترمہ فرزانہ صاحبہ،خلیق الرحمان ،سدھیر احمد ،اسرار الحق گیلانی و دیگر نے مثالی محنت کی اور ان اساتذہ کی انتھک محنت اور جذبہ صادق کو دیکھتے ہوئے اکثر گھرانوں نے اپنے بچوں کو اس سکول میں بھیجنا شروع کر دیا۔بالآخر تعداد اتنی بڑھ گئی کے پریس فار پیس کو دارالحکومت مظفرآباد کے مختلف حصوں میں مزید سکول کھولنے پڑے۔

یہ تمام سکول پریس فار پیس ،شعبہ خواتین کی چیئر پرسن اور معروف ماہر تعلیم محترمہ تنویر لطیف کی زیر سرپرسی کام کرتے رہے۔

پریس فار پیس ایجوکیشنل یونٹ کے 32اساتذ ہ کرام نے 6 ماہ کے قلیل عرصے میں تقریباًایک ہزار بچیوں اور بچوں کو بلامعاوضہ پڑھایا۔

،زلزلے سے تباہ شدہ تعلیمی انفرا سٹرکچر کے باوجود ایجوکیشنل یونٹ نے ا پنے وضع کردہ امتحانی سسٹم کے تحت امتحانات لیے جن میں سے اکثر طلبہ و طالبات نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔بعد ازاں وسائل کی عدم دستیابی اور خیمہ بستیوں کے ختم ہونے کی وجہ سے 5سکولوں کو ختم کر کے بچوں کے والدین کے ساتھ مل کر انھیں پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں داخل کرا یا گیا۔

زلزلہ متاثرین کے بچوں کے لیے اسکول

بعد میں ان میں سے 2سکولوں کو بین الاقوامی این جی او’’قریطاس‘‘کے تعاون سے زلزلہ پروف عمارتیں تعمیر کر کے مستقل بنیادوں پروہاں منتقل کر دیا گیا ۔یہ دونوں سکول جن کا نام پریس فار پیس ماڈل سکول رکھا گیا تھا ایک مظفر آبادمیں اوردوسرا نیلم وادی میں کنڈل شاہی کے مقام پر ابھی تک تدریسی خدمات دے رہے ہیں۔

پریس فار پیس ہی کے ایجوکیشنل یونٹ نے ایف اے اور بی اے لیول کے 200طلبہ و طالبات کے امتحانی فارم جمع کروائے اور72طلبہ کا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ کروایا اور ان کو اس سلسلے میں درپیش مسائل اور مشکلات میں فوری معاونت فراہم کی گئی۔مزید برآں طلبہ کے تعلیمی سال کے ضیاں کے پیش نظر یونٹ نے نصاب کی تدریس مکمل کروانے کے لیے 3سینٹرز قائم کیے جو 2 ماہ تک بلا معاوضہ طلبہ کو ہر طرح کی نصابی رہنمائی دیتے رہے۔

پریس فار پیس نے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں یتیم بچوں ،بیوگان اور بے سہارا افراد کے کوائف جمع کرنے کے لیے ایک الگ یونٹ تشکیل دیا جس نے گھروں اور خیمہ بستیوں میں جا کر ایسے لوگوں کے اعداد و شمار اور کوائف اکٹھے کر کے بین الاقوامی تنظیموں سمیت متعدد امدادی اداروں کے سپرد کر کے ان کی خاطر خواہ مدد کی۔

متعدد یتیم طلبہ اور طالبات کے لیے وظائف لگوائے گئے۔چہلہ بانڈی کے مقام پر اخلاقی اور دینی تعلیم دینے کے لیے جز وقتی دینی مدرسے کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں درجنوں بچے اور بچیاں ضروری بنیادی دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ریلیف سرگرمیاں

 پریس فار پیس نے مختلف فلاحی تنظیموں اور این جی اوز کے تعاون سے متاثرہ علاقوں کے شدید ضرورت مند اور مستحق لوگوں میں ایک ہزار خیمے ،ایک ہزار پلاسٹک

پریس فار پیس کی آگاہی مہم

 شیٹس500چولہے852رضائیاں 250لیمپ500بوری کوئلہ،کورین گرم کمبل،950کھجوروں کے پیکٹس 460گرم سویٹرز کے پیکٹس، گرم شالوں کے علاوہ 22ٹرک سامان خورد و نوش کپڑے،جیکٹس،جوتے اور دیگر روز مرہ کے استعمال کی اشیاء تقسیم کیں۔

شیلٹر پروگرام

پریس فار پیس نے مظفر آباد کے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام پنجگراں میں شیلٹر پروگرام شروع کیا جہاں برفباری کے باعث لوگوں کا خیموں میں رہنا نا ممکن تھا اس کے لیے پرس فار پیس کے رضا کاروں نے آصف رضا میر کی سربراہی میں نہایت جانفشانی سے علاقے کا سروے مکمل کیا ،شرکت گاہ لاہور نے پی ایف پی کے ساتھ مل کر دیولیاں ،تتڑیال ،چمبہ،اور پنجگراں میں 800خاندانوں کو شیلٹرز فراہم کرنے کے لیے جستی چادریں فراہم کیں اور گھروں کی تعمیر کے لیے ہنگامی بنیادوں پر دیگر ضروری سامان بھی فراہم کیا ۔شرکت گاہ لاہور کے ٹیم لیڈر احمد رضا خان اور پریس فار پیس کی رضا کار فورس جس میں آصف رضا میر ،علی گوہر اور اسد علی شامل تھے نے دن رات ایک کر کے متاثرین تک ضرورت کی تمام اشیا ء بہم پہنچائیں۔

صحت و صفائی اور میڈیکل :زلزلہ کے بعد پیدا ہونے والی صحت و صفائی کی ناقص اور نا گفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر پریس فار پیس نے متاثرہ خاندانوں میں 2800صحت و صفائی کٹس تقسیم کیں ،نیز ضلع باغ میں محکمہ بہبود آبادی کے اشتراک سے فری میڈیکل کیمپ قائم کیا اور مختلف اداروں کو ادویات بھی فراہم کی گئیں۔بالخصوص پریس فار پیس نے زہنی طور پر متاثر ہونے والے افراد کی بحالی پر توجہ دی اور ان کے علاج و معالجے کے لیے ماہر نفسیات سے رجوع کر کے ان کا علاج معالجہ کرایا۔

راولاکوٹ

 ضلع راولاکوٹ میں عابد صدیق کی سربراہی میں پریس فار پیس کی پوری ٹیم جن میں سردار راشد نزیر ،سردار عبدالرزاق،سردار سہیل ،عبدالرحمٰن اور ان کے دیگر رفقاء شامل تھے نے اپنے مدد آپ کے تحت ریلیف سرگرمیاں جاری رکھیں ۔متاثرہ صحافیوں اور اخبار فروشوں میں امدادی سامان تقسیم کیا اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ طلبہ و طالبات کی داخلہ فیس بھی جمع کروائی گئی اور باہر سے آنے والے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں کو مکمل رہنمائی فراہم کی ،راولاکوٹ میں پریس فار پیس نے مختلف تنظیموں سے رابطہ کیا اور ان کی متاثرہ علاقوں تک رہنمائی کی اور ان کو مکمل معلومات فراہم کیں ۔راولاکوٹ میں پہلی جماعت سے لے کر پرائمری جماعت تک کے طلبہ میں مختلف اداروں کے تعاون سے تقریباًدو لاکھ کتابیں تقسیم کی گئیں اور یونیورسٹی لیول کے طلبہ کے لیے خصوصی وظائف کا انتظام کیا گیا ۔

باغ

باغ میں پریس فار پیس کی ٹیم کے یوسف کشمیری،طاہر شاہ،عمران گیلانی ،شوکت تیمور،مس عبیدہ ،مس سلمیٰ اور دیگر ساتھیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا باغ کے متاثرہ صحافیوں میں پریس فار پیس کی جانب سے خیمے ،کمبل ،سلینڈرز،لیمپ اور کھانے پینے کا سامان تقسیم کیا گیا ۔پریس فار پیس باغ نے فری میڈیکل کیمپ کا بھی انعقاد کروایا جس میں مریضوں کو فری چیک اپ اور ادویات بھی فراہم کی جاتی تھیں۔پریس فار پیس نے ریلیف کی تمام سرگرمیوں کے دوران لوگوں کی عزت نفس کا ہر ممکن خیال رکھا تنظیم کے مرکزی عہدیداران نے اپنے کندھوں پر سامان اٹھا کر بیوگان ،اخبار فروشوں ،صحافیوں اور انتظامی مشینری کے متاثرہ افراد کے گھروں اور خیموں میں پہنچایا ۔میرپور میں رفیق مغل،سندھنوتی میں شکیل چوھدری بھی صحافتی محاز پر مصروف عمل رہے۔

اقلیتی برادری اور پریس فار پیس

اگرچہ 8اکتوبرکی قیامت نے بلا تفریق ہر طبقے ہی کو متاثر کیا ۔تاہم ریلیف اور امدادی سرگرمیو ں کے دوران غیر مسلم کمیونٹی کے لوگ امداد سے یکسر محروم رہے اس سلسلے میں پی ایف پی نے کرسچن بھائی کمیونٹیز امدادی کوٹہ مقرر کیا اور باعزت طریقے سے ان کی مددکی۔بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پریس فار پیس کے رہنماؤں نے کرسمس کی تقریبات خیمہ بستیوں میں مقیم کرسچن کمیونٹی کے ساتھ منائیں ،پریس فار پیس نے کرسمس کے موقع پہ پاکستان میں مقیم مسیحی برادری سے بھی در خواست کی کہ وہ کرسمس کی تقریبات متاثرہ خاندانوں کے ساتھ منائیں۔انٹرنیشنل فیملی اور ہیومن ریسورس سینٹر کے رشید مسیح نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مظفرآباد کا دورہ کیا اس موقع پر پریس فار پیس کی جانب سے خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔

امن مینار (پیس پول) کی تنصیب:پریس فار پیس بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم URIکی بھی ممبر ہے اور پریس فار پیس نے URIکے تعاون سے حالات کے تناظر میں امن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے مظفرآباد میں دو میل کے مقام پر عالمی علامتی نشان (پیس پول)نصب کیا۔اس موقع پر URIکے علاقائی کو آرڈینیٹر برائے ایشیا فادر جیمز چینین اور پاکستان میں URIکی تمام سی سی کے سربراہان موجود تھے پیس پول کی تنصیب پریس فار پیس کی ٹیم اور فادر جیمز چینین نے مل کر کی۔

میڈیا ریلیف سینٹر

پریس فار پیس نے بینک روڑ پر میڈیا ریلیف سینٹر قائم کیا اس میڈیا سینٹر میں باہر سے آنے والے امدادی کارکنوں اورتنظیموں کومتاثرہ علاقوں کے بارے میں مکمل معلوماتی رہنمائی فراہم کی جاتی تھی اس کے ساتھ ہی گائیڈ اور مترجم کے علاوہ تباہی کے بعدہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار کی فراہمی بھی یقینی بنائی گئی اور ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ضروری پیشہ ورانہ رہنمائی بھی اسی میڈیا ریلیف سینٹر کیپلیٹ فارم سے فراہم کی جاتی رہی۔

پریس فار پیس کے عہدیداران نے اپنی دونوں عیدیں متاثرین کے ساتھ منائیں عیدا لاضحٰی کے موقع پر پریس فار پیس نے بچوں کی تفریح طبع کے لیے مزاحیہ خاکوں اور چھوٹے چھوٹے ڈراموں کے پروگرامات ترتیب دئیے تاکہ بچوں کوٹراما کی کیفیت سے نکالا جا سکے۔ان خاکوں میں پریس فار پیس ہی کی ٹیم کے مرکزی عہدیداران نے بطور اداکار حصہ بھی لیا، بالخصوص چیف کو آرڈی نیٹر ظفر اقبال ،راجہ وسیم خان اور فرید الھادم نے ان خاکوں میں رنگ بھرے پریس فار پیس کے زیر انتظام اسی نوعیت کے پروگرام بیشتر سکولوں میں بھی منعقد کئے گئے۔

بیوگان اور بے سہارا خواتین کے لیے خدمات

پریس فار پیس نے بیوگان اور بے سہارا خواتین کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کا قیام عمل میں لایاجہاں خواتین کو سلائی کڑھائی اور دستکاری سکھائی جاتی تھی تاکہ زلزلہ سے بے سہارا ہونے والی خواتین اپنے پاؤ ں پر کھڑی ہو سکیں ۔پلیٹ کے مقام پر قائم کیے جانے والے اس سینٹر کی کامیابی میں شگفتہ الیاس سینئر انسٹرکٹر کا کردار مثالی رہا جنھوں نے رضا کارانہ بنیادوں پر اس کام کا جاری رکھا اس سینٹر کی سرپرست میڈم تنویر لطیف کا تعلق پریس فار پیس کے شعبہ خواتین سے ہے ۔ووکیشنل ٹریننگ سینٹر میں خواتین کو سلائی ،کڑھائی اور دستکاری سکھانے کے لیے اساتذہ کرام نے اپنی بھر پور پیشہ ورانہ مہارت بالکل رضارانہ طور پر فراہم کی۔

ثقافتی زیورات کی نمائش

:پریس فار پیس نے وادی نیلم میں مقامی طور پر تیار کی گئی جیولری کی نمائش کا انعقاد کیا مختلف ملکوں کی خواتین نے اس نمائش میں شرکت کی اور مقامی خواتین کے ہاتھوں تیار ہونے والی جیولری کو بہت پسند کیا اور اسے اچھے داموں خریدا ،جس سے متاثرہ خواتین کو اچھی خاصی آمدنی ہوئی اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع اور اس کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا۔

تحفظ ماحولیات

زلزلے نے جہاں انسانی تمدن پران مٹ اور تباہ کن اثرات چھوڑے وہاں قدرتی ماحول بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا۔جا بجاملبے کے ڈھیر ،راستوں کی تباہی ،گلی کوچوں اور سڑکوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔یہی نہیں پہاڑی علاقوں میں زمین بری طرح تہس نہس ہوگئی جس سے جنگلات اور سبزہ زار تباہ و برباد ہو گئے ۔بچے کھچے جنگلات پر متاثرین نے رہائش اور کاروباری املاک کی تعمیر کے لیے قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ماحولیاتی تباہی سے انسانی حیات کو لاحق خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے تمام علاقوں میں تحفظ ماحولیات مہم شروع کی گئی،اس میں پریس فار پیس کے ڈپٹی کو آرڈینیٹر عابد صدیق ،راشد نذیر ،کے علاوہ ڈسٹرکٹ باغ کے کو آرڈی نیٹر یوسف کشمیری،امیر الدین مغل ،کوآرڈی نیٹر ماحولیات آفتاب عالم،مرکزی ڈپٹی کو آرڈی نیٹر راجہ وسیم اور درجنوں رضاکاران جن میں محترمہ نگہت چوھدری اور محترمہ فرزانہ شامل ہیں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ 

تحفظ ماحولیات ایجنسی آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر کے تعاون سے شروع کی جانے والی اس مہم کے دوران’’ ہفتہء ماحولیاتی آگاہی‘‘ منایا گیاجس میں سکولوں ،کالجوں ،گلی محلوں اور دیہی علاقوں میں خصوصی بروشرز تقسیم کیے گئے ۔اس مہم کے دوران مظفر آباد،باغ ،راولاکوٹ،وادی نیلم ،وادی جہلم کے تعلیمی اداروں ،

سرکاری دفاتر ،میونسپل کارپوریشن،علاقائی و دیہی مراکز پر پروگرامات اور میٹنگز کے ذریعے تحفظ ماحول کی اہمیت پر زور دیا گیا ۔اسی مہم کے تحت مظفر آباد ،ہٹیاں بالا ،گڑھی دوپٹہ وادی نیلم اورکنڈل شاہی کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات میں تقریری مقابلوں کا بھی انعقاد کرایا گیا ۔مظفرآباد کی تمام خیمہ بستیوں میں صحت و صفائی اور ماحولیات کا شعور اجاگر کرنے کے لیے تحریری مواد بھی تقسیم کیا گیا جس سے ماحولیاتی تحفظ کو اجاگر کرنے میں کافی مدد ملی۔

ایل پی جی پروجیکٹ نیلم:پریس فار پیس کی تحریک پر UNDP اور بلندی ویلفیئر آرگنائزیشن نے دیہی علاقوں میں کوکنگ اور ہیٹنگ پروجیکٹ شروع کیا جس کا مقصد جنگلات کو تحفظ دینے کے لیے توانائی کے دیگر یا متبادل ذرائع کو فروغ دینا تھا۔وادی نیلم یں قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے یو این ڈی پی اور بلندی آرگنائزیشن کے تعاون سے 400ایل پی جی سلینڈرز اور چولہے تقسیم کیے گئے اور لوگوں سے ایک معاہدہ کیا گیا کہ جس کے مطابق عوام لکڑیوں کا استعمال کم کریں گے اور درختوں کے بچاؤ کے لیے نئی شجر کاری کااہتمام کریں گے۔اس پروجیکٹ کے انچارج کو آرڈی نیٹر ضلع نیلم کے حافظ نصیر الدین مغل تھے۔

ورکشاپس کا انعقاد:ماحولیات کے بارے میں صحافیوں کو آگا ہ کرنے اور ان میں ذمہ داریوں کا احساس بیدار کرنے کے لیے پریس فار پیس نے اسلامک ریلیف کے تعاون سے مظفر آباد اور راولاکوٹ میں خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کیا ان ورکشاپس کے لیے ریسورس پرسن آسٹریا کی مشہور صحافی خاتون ایوا ماریہ تھیں جو پریس فار پیس کی خصوصی دعوت پر آسٹریا سے تشریف لائیں ۔ ان ورکشاپس میں صحافیوں کے علاوہ سماجی کارکنان میں ماحول کو بہتر بنانے اور اس کے متعلق شعور بیدار کرنے کی تربیت 

دی گئی ۔

پریس فار پیس کی خدمات کا اعتراف 

شدید زلزلہ کے باعث مظفر آباد کے تمام نشریاتی اداروں جن میں ریڈیو مظفر آباد اور اے جے کے ٹی وی کی عمارتیں بری طرح تباہ ہوئیں وہیں پر کمیونیکشن کا نظام بھی بری طرح درہم برہم ہوا جس کی 8اکتوبر کی شام تک پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر صرف اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور کے گرنے کی خبریں چلتی رہیں اسی وجہ سے ریسکیو آپریشن اتنا وسیع نہ ہو سکا جس طرح دوسرے دن ہوا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد مدد کا انتظار کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے ۔

اس کے باوجود مظفر آباد کے صحافتی ادارے سرگرم رہے جن میں روزنامہ اسلام،ازکار، محاسب،خبریں ،جنگ ،نوائے وقت،نیوز Reutersکے لیے کام کرنے والے سبھی صحافیوں کا کردار قابل تعریف ہے۔

مظفر آباد کی صحافی تنظیم پریس فار پیس کے ممبران جہاں اپنے ساتھیوں کی تلاش میں مصروف تھے وہیں وہ دنیا کو مظفر آباد میں ہونے والی تباہی سے بھی آگاہ کرتے رہے جو ان کے اپنے فرض سے لگن کی ایک زندہ مثال ہے ۔

جب پریس فار پیس کے اراکین سے ان کے کام کے متعلق دریافت کیا گیا تو کو آر ڈی نیٹر امیر الدین مغل نے بتایا کہ وہ زلزلے کے وقت اپنے آفس میں کام کر رہے تھے دیوار گرنے سے ان کے سر پر شدید چوٹ آئی جس کی وجہ سے ان کو اسلام آباد لے جایا گیا وہ زخمی حالت میں اپنے ارد گرد کی تباہی کو بے بسی سے دیکھتے رہے اور اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ وہ اس مشکل وقت میں ان لاکھوں انسانوں کے کام آنے سے قاصر ہیں ۔

لیکن علاج سے واپسی کے ساتھ ہی انھوں نے دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا اور تمام علاقوں تک کی رپورٹس قومی اور بین الاقوامی اخبارات ،رسائل اور الیکٹرانک میڈیاتک پہنچاتے رہے جس سے بحالی کے کام میں تیزی آئی ۔

پریس فار پیس میں کام کرنے والے ایک با صلاحیت نوجوان عتیق الرحمٰن جو پوسٹ گریجویٹ کالج میں طالبعلم بھی تھے کے بارے میں ان ہی کے ایک ساتھی اس مغالطہ میں رہے کہ شاید مظفر آباد کے گلی کوچوں میں خبریں اکٹھی کرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی کئی دیگر طالب علموں ساتھیوں سمیت گریجویٹ کالج ی عمارت کے نیچے دب کر شہید ہو چکے ہیں ۔

پرسی فار پیس کے باقی نوجوان زلزلہ کے فوراً بعد اپنے کام کے ساتھ ریسکیو و ریلیف کے کام میں لگ گئے اور جس طرح امداد کے لیے آنے والی این جی اوز اور رضا کار تنظیموں کے ساتھ مل کر گراں قدر خدما ت سرانجام دیتے رہے اس حوالے سے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

  اقتباس  ’’آٹھ اکتوبر کے انمٹ نقوش‘‘

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact